پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضوں پر ماہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائے گا۔
اشتہار
پاکستان کی قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم 126 بلین ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا ہے اور یہ کہ ملک کو 2059ء تک 95 بلین ڈالر سے زائد پرنسپل رقم اور سود کی مد میں ادا کرنا ہوں گے۔
یہ انکشاف ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب ملک شدید مالی اور معاشی مشکلات کا شکار ہے اور ملک کے کئی حلقے دعویٰ کر رہے ہیں کہ ملک میں سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔
’قرضہ ناقابل برداشت ہے‘
یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے یہ قرضے ناقابل برداشت ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جنرل مشرف کے دور میں کچھ معاشی ماہرین کی رائے تھی کہ قرض جی۔ ڈی ۔ پی کے 60 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن اب یہ 90 فیصد کے قریب ہے جو کہ خطرناک ہے کیونکہ پاکستان کی یہ قرضے اتارنے کی صلاحیت نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر قیس کے بقول، ''پاکستان کی ایکسپوٹ کم ہو رہی ہے۔ پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے انڈسٹریز بند ہو رہی ہیں اور لوگ زراعت کو ترک کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے ریونیو مزید کم ہو رہا ہے۔ ریونیو مزید کم ہوگا تو ملک قرضے کیسے واپس کرے گا؟ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ملک میں ایک بڑا مہنگائی کا طوفان آئے گا۔‘‘
’آئی ایم ایف سے جان چھڑائیں‘
کراچی سے تعلق رکھنے والی معیشت دان ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے، ''ملک کی سیاسی اشرافیہ اور عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کی وجہ سے قرض بڑھے ہیں۔‘‘ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا، ''آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی اداروں کو فکر صرف قرضوں کی واپسی کی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں روپے کی قدر کم کرنا پڑتی ہے۔ منافع بخش اداروں کو بیچنا پڑتا ہے۔ پٹرول، ڈیزل اور انٹرسٹ ریٹ کو بڑھانا پڑتا ہے۔ جس سے معیشت کو بھی نقصان ہوتا ہے اور عام آدمی کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر شاہدہ کے مطابق، ''پاکستان کے قرضے 2019ء سے ناقابل برداشت ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنا آسان نہیں لیکن اگر عالمی مالیاتی اداروں سے جان چھڑائی جائے، مقامی صنعت کو مضبوط کیا جائے، امیروں پر ٹیکس لگایا جائے، لگژری مصنوعات کی امپورٹ بند کی جائے اور شاہانہ اخراجات ختم کیے جائیں تو ہم مسئلے کے حل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔‘‘
دنیا کی کمزور اور مضبوط ترین کرنسیاں
ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی پانچ مضبوط ترین اور پانچ کمزور ترین کرنسیاں کون سے ممالک کی ہیں اور پاکستانی روپے کی صورت حال کیا ہے۔ جانیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
1۔ کویتی دینار، دنیا کی مہنگی ترین کرنسی
ڈالر کے مقابلے میں سب سے زیادہ مالیت کویتی دینار کی ہے۔ ایک کویتی دینار 3.29 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس چھوٹے سے ملک کی معیشت کا زیادہ تر انحصار تیل کی برآمدات پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Al-Zayyat
2۔ بحرینی دینار
دوسرے نمبر پر بحرینی دینار ہے اور ایک بحرینی دینار کی مالیت 2.65 امریکی ڈالر کے برابر ہے اور یہ ریٹ ایک دہائی سے زائد عرصے سے اتنا ہی ہے۔ کویت کی طرح بحرینی معیشت کی بنیاد بھی تیل ہی ہے۔
تصویر: imago/Jochen Tack
3۔ عمانی ریال
ایک عمانی ریال 2.6 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس خلیجی ریاست میں لوگوں کی قوت خرید اس قدر زیادہ ہے کہ حکومت نے نصف اور ایک چوتھائی ریال کے بینک نوٹ بھی جاری کر رکھے ہیں۔
تصویر: www.passportindex.org
4۔ اردنی دینار
اردن کا ریال 1.40 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ دیگر خلیجی ممالک کے برعکس اردن کے پاس تیل بھی نہیں اور نہ ہی اس کی معیشت مضبوط ہے۔
تصویر: Imago/S. Schellhorn
5۔ برطانوی پاؤنڈ
پانچویں نمبر پر برطانوی پاؤنڈ ہے جس کی موجودہ مالیت 1.3 امریکی ڈالر کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایک برطانوی پاؤنڈ کے بدلے امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت 1.2 اور زیادہ سے زیادہ 2.1 امریکی ڈالر رہی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
پاکستانی روپے کی صورت حال
ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ دنوں کے دوران مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں کم از کم مالیت 52 اور 146 پاکستانی روپے کے درمیان رہی اور یہ فرق 160 فیصد سے زائد ہے۔ سن 2009 میں ایک امریکی ڈالر 82 اور سن 1999 میں 54 پاکستانی روپے کے برابر تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
بھارتی روپے پر ایک نظر
بھارتی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی روپے کے مقابلے میں مستحکم رہی۔ سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر قریب 42 بھارتی روپوں کے برابر تھا جب کہ موجودہ قیمت قریب 70 بھارتی روپے ہے۔ زیادہ سے زیادہ اور کم از کم مالیت کے مابین فرق 64 فیصد رہا۔
تصویر: Reuters/J. Dey
5 ویں کمزور ترین کرنسی – لاؤ کِپ
جنوب مشرقی ایشائی ملک لاؤس کی کرنسی لاؤ کِپ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پانچویں کمزور ترین کرنسی ہے۔ ایک امریکی ڈالر 8700 لاؤ کپ کے برابر ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کرنسی کی قیمت میں کمی نہیں ہوئی بلکہ سن 1952 میں اسے کم قدر کے ساتھ ہی جاری کیا گیا تھا۔
4۔ جمہوریہ گنی کا فرانک
افریقی ملک جمہوریہ گنی کی کرنسی گنی فرانک ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی چوتھی کمزور ترین کرنسی ہے۔ افراط زر اور خراب تر ہوتی معاشی صورت حال کے شکار اس ملک میں ایک امریکی ڈالر 9200 سے زائد گنی فرانک کے برابر ہے۔
تصویر: DW/B. Barry
3۔ انڈونیشین روپیہ
دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کی کرنسی دنیا کی تیسری کمزور ترین کرنسی ہے۔ انڈونیشیا میں ایک روپے سے ایک لاکھ روپے تک کے نوٹ ہیں۔ ایک امریکی ڈالر 14500 روپے کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ایک امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت بھی آٹھ ہزار روپے سے زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Zuma Press/I. Damanik
2۔ ویتنامی ڈانگ
دنیا کی دوسری سب سے کمزور ترین کرنسی ویتنام کی ہے۔ اس وقت 23377 ویتنامی ڈانگ کے بدلے ایک امریکی ڈالر ملتا ہے۔ بیس برس قبل سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر میں پندرہ ہزار سے زائد ویتنامی ڈانگ ملتے تھے۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہتر پالیسیاں اختیار کرنے کے سبب ویتنامی ڈانگ مستقبل قریب میں مستحکم ہو جائے گا۔
تصویر: AP
1۔ ایرانی ریال
سخت امریکی پابندیوں کا سامنا کرنے والے ملک ایران کی کرنسی اس وقت دنیا کی سب سے کمزور کرنسی ہے۔ اس وقت ایک امریکی ڈالر 42100 ایرانی ریال کے برابر ہے۔ سن 1999 میں امریکی ڈالر میں 1900 ایرانی ریال مل رہے تھے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ڈالر کے مقابلے میں کم ترین اور زیادہ ترین ایکسچینج ریٹ میں 2100 فیصد تبدیلی دیکھی گئی۔
تصویر: tejaratnews
12 تصاویر1 | 12
مسئلے کا حل
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر عاطف مسعود کہتے ہیں کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے جی ڈی پی کی شرح کو چھ فی صد تک بڑھایا جائے: ''لگژری مصنوعات پر پابندی، پیٹرول کے استعمال کو کم کر کے اربوں ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔ جب کہ سی پی ای سی کے پراجیکٹ شروع کر کے ٹیکس لگائے جائیں تو چار بلین ڈالر کا ریوینیو سالانہ حاصل ہوسکتا ہے۔‘‘