1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پاکستان کا بیرونی قرضہ 126 بلین ڈالر سے بھی زائد

عبدالستار، اسلام آباد
29 جولائی 2022

پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرضوں پر ماہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائے گا۔

USA Symbolbild US Dollar Inflation
تصویر: Xie Zhengyi/dpa/picture alliance

پاکستان کی  قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم 126 بلین ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا ہے اور یہ کہ ملک کو 2059ء تک 95 بلین ڈالر سے زائد پرنسپل رقم اور سود کی مد میں ادا کرنا ہوں گے۔

یہ انکشاف ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب ملک شدید مالی اور معاشی مشکلات کا شکار ہے اور ملک کے کئی حلقے دعویٰ کر رہے ہیں کہ ملک میں سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔

’قرضہ ناقابل برداشت ہے‘

یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے یہ قرضے ناقابل برداشت ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جنرل مشرف کے دور میں کچھ معاشی ماہرین کی رائے تھی کہ قرض جی۔ ڈی ۔ پی کے 60 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن اب یہ 90 فیصد کے قریب ہے جو کہ خطرناک ہے کیونکہ پاکستان کی یہ قرضے اتارنے کی صلاحیت نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر قیس کے بقول، ''پاکستان کی ایکسپوٹ کم ہو رہی ہے۔ پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے انڈسٹریز بند ہو رہی ہیں اور لوگ زراعت کو ترک کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے ریونیو مزید کم ہو رہا ہے۔ ریونیو مزید کم ہوگا تو ملک قرضے کیسے واپس کرے گا؟ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ملک میں ایک بڑا مہنگائی کا طوفان آئے گا۔‘‘

تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam

’آئی ایم ایف سے جان چھڑائیں‘

کراچی سے تعلق رکھنے والی معیشت دان ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے، ''ملک کی سیاسی اشرافیہ اور عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کی وجہ سے قرض بڑھے ہیں۔‘‘ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا، ''آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی اداروں کو فکر صرف قرضوں کی واپسی کی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں روپے کی قدر کم کرنا پڑتی ہے۔ منافع بخش اداروں کو بیچنا پڑتا ہے۔ پٹرول، ڈیزل اور انٹرسٹ ریٹ کو بڑھانا پڑتا ہے۔ جس سے معیشت کو بھی نقصان ہوتا ہے اور عام آدمی کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر شاہدہ کے مطابق، ''پاکستان کے قرضے 2019ء سے ناقابل برداشت ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنا آسان نہیں لیکن اگر عالمی مالیاتی اداروں سے جان چھڑائی جائے، مقامی صنعت کو مضبوط کیا جائے، امیروں پر ٹیکس لگایا جائے، لگژری مصنوعات کی امپورٹ بند کی جائے اور شاہانہ اخراجات ختم کیے جائیں تو ہم مسئلے کے حل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔‘‘

مسئلے کا حل

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر عاطف مسعود کہتے ہیں کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے جی ڈی پی کی شرح کو چھ فی صد تک بڑھایا جائے: ''لگژری مصنوعات پر پابندی، پیٹرول کے استعمال کو کم کر کے اربوں ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔ جب کہ سی پی ای سی کے پراجیکٹ شروع کر کے ٹیکس لگائے جائیں تو چار بلین ڈالر کا ریوینیو سالانہ حاصل ہوسکتا ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں