1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کا ’تھرتھلی مچا‘ دینے والا سیاست دان!

28 مئی 2021

جب وہ اس بات کا اعلان ہی کرتے کہ وہ فلاں فلاں تاریخ کو پریس کانفرنس کر سکتے ہیں تو میڈیا میں اور میڈیا کے ذریعے پورے ملک میں ’تھرتھلی مچ‘ جاتی۔ یوں سمجھیے کہ وہ ’میڈیا کی ڈارلنگ‘ تھے۔

Muhammad Akram
تصویر: privat

کسی ایک یا دوسری وجہ سے پریس کانفرنس ملتوی یا منسوخ ہو جاتی تو پھر ٹی وی سکرینوں پر سرخ آندھی کی طرح گھومنے والے 'پھٹوں‘ کے ذریعے تھرتھلی مچ جاتی۔ یقینا آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ درج بالا سطروں میں ذکر کسی اور کا نہیں بلکہ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا ہے تو اس سے پہلے کہ کوئی تھرتھلی مچے یا سنسنی پھیلے، جان لیجیے کہ آپ کا اندازہ بالکل درست ہے۔

 چوہدری نثار علی خان ہی وہ شخصیت ہیں کہ جب وہ میاں نواز شریف کی تیسری وزارت عظمی میں وفاقی وزیر داخلہ تھے تو وہ میڈیا کی 'ڈارلنگ‘ ہوا کرتے تھے۔ ایسا کم ہی ہوتا کہ کوئی نیوز چینل ان کو محض اس وقت دکھانا شروع کرے جب وہ میڈیا سے گفتگو کا آغاز کرتے، پاکستانیوں کی اکثریت کو ان کے چلنے کا انداز تک یاد ہے کیوں کہ تمام نیوز چینلز اکثر اوقات ان کی پریس کانفرنس کو ہال میں ان کے داخل ہونے سے لے کر پوڈیم پر لگے مائیکس تک پہنچنے کو بھی براہ راست نشر کرنا یکارڈ توڑ ریٹنگ کا حصہ گردانتے تھے۔

 ان کی مختصر سے مختصر پریس کانفرنس کا دورانیہ بھی دو سوا دو گھنٹے سے کم نہ ہوتا، کوئی نیوز چینل دم لینے یا اپنے ناظرین کو دم دلوانے کے لئے بھی اس پریس کانفرنس میں وقفہ نہ لیتا تھا۔ اس کی عمومی وجہ یقیناﹰ نیوز چینلز کی ٹیلی وژن ریٹنگ پوائنٹس کے لئے مسابقت بھی ہوتی مگر دوسرا نکتہ اس بات کا یقین نہ ہونا بھی ہوتا کہ نا جانے کب کس گھڑی ایسی بات کہہ دیں، جس سے پھٹے گھمانے کی رفتار مزید تیز کرنا پڑ جائے۔ اکثر اوقات اس ایک لمحے کے انتظار میں پہلے سے کہی ہوئی بات کو بار بار دہرانے یا محاورے کے مصداق 'پانی میں مدانی گھمانے‘ کو بھی نیا جملہ گردانتے ہوئے پریس کانفرنس کو بلا روک ٹوک آن ایئر رکھتے۔

 کسی بھی نیوز چینل کا بڑا یا درمیانے درجے کا افسر المعروف ڈائریکٹر نیوز یا کنٹرولر نیوز(جنہیں نیوز چیننلز میں اب معدومیت کا شکار اخبار کے ایڈیٹر یا نیوز ایڈیٹرکا رتبہ حاصل ہوتا ہے) اگر اداراتی فیصلہ کر بھی لے کہ بہت ہو گیا، اب اس سے نکلتے ہیں تو اوپر سے حکم  آ جاتا کہ اسی پر رہو باہرکیوں آئے ہو؟ کوئی انہونی بات نہ ہوتی، ایسا حکم سن کر اگر صحافیانہ انا باقی ہو تو نیوز مینیجر اپنی نظروں میں شرمسار ہو جاتا یا 'غلطی‘ کسی جونئیر پر ڈال کر پتلی گلی سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھتا۔ وگرنہ اب ایسی جرات رندانہ کہاں کہ سیٹھ سے کہہ دے کہ فیصلہ ٹھیک ہے، آپ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں اور مجھے میرا کام کرنے دیں۔ اکثر جان (نوکری) ہے، تو جہاں ہے، میں چھپی 'دانش‘ اور بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے عفریت سے پناہ مانگتے ہوئے سمجھ چکے ہیں کہ دلہن وہی جو پیا من بھائے، ورنہ مسافر نواز بہتیرے۔

تو بات ہو رہی تھی چوہدری نثار علی خان کی، جن کی میڈیا میں  ڈھائی پونے تین سال بعد انٹری میں اب ویسا 'سواد‘ تو نہیں رہا مگر پھر بھی باسی سالن کی باس کو ختم کرنے کا آزمودہ نسخہ، تیز مصالحے اور بار بارکے استعمال میں لائے گئے غیر معیاری تیل میں لگا تڑکا، سارا مسئلہ حل کر دیتا ہے۔ تو یقین رکھیے وہ تڑکا اب بھی لگ رہا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ مزید چند دن لگتا رہے گا کہ ٹی وی سکرینوں پر نیا سامان دلچسپی چند دن مزید عوامی توجہ حاصل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

اگرچہ یہ بات بھی ہوئی کہ پونے تین سال بعد پنجاب اسمبلی کا حلف لینا، کیا پارلیمانی جمہوریت اور اپنے حلقے کے عوام کو منتخب ایوان میں نمائندگی سے محروم رکھنا، حلقے کے عوام اور منتخب اداروں کی توہین نہیں؟ تو یارانِ نقطہ دان المعروف 'اینکرز‘ نے یاد دلایا کہ وہ تو چکری کے چوہدری ہیں، ان کو اگر کسی بات پر غصہ آ جائے تو وہ دوسرے کی چھوڑ اپنی نہیں سنتے۔ یوں اسمبلی کی رکنیت کا حلف تاخیر سے لینا بھی ان کی اک ادا ٹھہرا۔ پینتیس چالیس برس بیت گئے کبھی 'ووٹ  کو عزت دو‘ والوں نے یا 'جمہوریت ہماری سیاست ہے‘ والوں نے نہ سوچا کہ آخر عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والا اسمبلی کا حلف نہ اٹھانے کی قسم کھائے تو کھائے کیوں اور اگر قسم کھا بھی لے تو کیا دورانیہ غیرمعینہ مدت ہونا چاہیے یا کچھ بندوبستی مدت بھی ہونی چاہیے۔

ابھی پونے تین سال والے نے اسحاق ڈار اور چوہدری نثار سے 'پرانے بدلے‘ چکانے کے لیے فیصلہ کیا کہ نیا قانون لایا جائے، جس میں حلف نہ اٹھانے کی قسم کھانے کی کوئی مدت بھی ہو۔ چوہدری نثار علی خان نے اس نئے قانون کےآنے سے پہلے حلف نہ اٹھانے کی قسم واپس لینے اور حلف اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

2018 میں چوہدری نثارنےمیں نواز شریف سے سیاسی دوریوں کی وجہ سے شیر کی جگہ گائے کے انتخابی نشان پر یعنی آزاد حیثیت میں راولپنڈی سے الیکشن لڑا۔ قومی اسمبلی کا الیکشن بری طرح سے ہار گئے مگر پنجاب اسمبلی کی سیٹ بڑے فرق سے جیت لی۔ انہیں قومی اسمبلی کی نشست ہارنے کا اتنا رنج ہوا کہ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کے طور پر پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا بھی حلف نہ لیا۔

 تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے انتخابی اصلاحات کے ماتحت قوانین میں ترامیم کے ذریعے اسمبلی کا حلف نہ اٹھانے والوں کے خلاف نیا قانون سامنے آنے کی اطلاعات پر چوہدری نثار نے احتجاج ادھورا چھوڑ کر پنجاب اسمبلی کا حلف یافتہ رکن بننے کا فیصلہ کیا۔ کہتے ہیں کہ حلف اس لئے لے رہا ہوں کہ میرے حلقے کے ووٹر بھی کیا یاد کریں گے کہ کس ایم پی اے سے پالا پڑا ہے، ورنہ انہیں کورونا میں ضمنی انتخابات کی کوفت اٹھانا پڑھتی اور حلقہ بھی مفت میں بے قابو ہونے کا خدشہ الگ سے پیدا ہو جاتا۔        

 یہ بھی سننے میں آیا کہ چوہدری صاحب نے اپنے حلقے کے لوگوں سے اس بابت مشورہ بھی کیا مگر مشورہ دینے والے سارے کہ سارے پپو پٹواری جیسے نکلے، طویل مشاورت کے باوجود کوئی ڈھنگ کا مشورہ نہ دے سکے۔ مجبوراﹰ چوہدری صاحب کو خود ہی فیصلہ کرنا پڑا کہ حلف اٹھانا ہی بہتر رہے گا کہ کل کلاں کوئی رول ہی ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ٹھیک ہے، چوہدری صاحب کا تجربہ بہت ہے کسی بھی کردار کو نبھانے سے پہلے انہیں کسی بھی قسم کی ریہرسل کی ضرورت نہیں، مگر پھر بھی کچھ تو تیاری رکھنی چاہیے، ناں!۔ اگر اتنا ہی ہوتا تو شاید چوہدری نثار اب تک حلف اٹھا کر اسمبلی سیٹ بچا کر، آئندہ انتخابات تک کے لئے گوشہ نشین ہو جاتے، مگر برا ہو قانون اور ضابطوں کا جو مخل ہوئے اور معاملہ کچھ طول پکڑ گیا۔ مگر یہ طوالت بھی بالآخر ختم ہوتی نظر آرہی ہے اور امید کی جارہی کہ چوہدری نثار طویل سیاسی کیریئر میں پنجاب اسمبلی کو بھی رونق بخشیں گے۔

خیر یہ معاملات اپنی جگہ مگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بابو بھی عجیب ہیں۔ اتنی تھرتھلی مچانے اور سنسی پھیلانے والے بندے کا معاملے سامنے آیا مگر ان کے ہاں مکمل سناٹا چھایا رہا۔ کیا برا ہوتا اگر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے 'مہنگے فراڈ‘  جیسے معاملے کی طرح چوہدری نثار کے حلف اٹھانے کے معاملے پر بھی کچھ ٹویٹ شویٹ کر دیتے، بعد میں چاہے پہلے کی طرح اسے ڈیلیٹ کر دیتے مگر ایک بار چوہدری صاحب کے معاملے میں برسوں بعد ہی سہی ایک بار پھر کوئی تھرتھلی تو مچ جاتی۔

اب یہ کوئی بات نہیں کہ پوچھنا شروع کر دیا جائے کہ یار یہ کیسا سسٹم ہے، یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ایک شخص 35، 36 سال سے خود الیکشن پر الیکشن جیت کر اور وزارتوں پر وزارتیں بدل کر آتا رہا مگر اس کے حلقے کے لوگوں کو آج بھی اتنا سا سیاسی شعور نہیں کہ اپنے ایم پی اے کوکوئی ڈھنگ کا مشورہ ہی دے دیں یا پپو پٹواری کی سوچ سے آگے بڑھ کر کچھ سوچ سکیں۔

مگرکوئی کر بھی کیا سکتا ہے اور پھر یہ معاملہ کسی ایک حلقے کا تھوڑا ہی ہے۔ پپو پٹواریوں کا ہی زمانہ ہے، پپو پٹواری ہی کامیاب ہیں ہمیشہ سے، اگر یقین نہیں آتا تو پاکستان کے پہلے 'مرد آہن‘ فیلڈ مارشل ایوب خان کی خود نوشت پڑھ لیں۔ کچھ فوری پڑھنے کے لئے چاہیے تو حبیب جالب صاحب کے تجربات کا نچوڑ حاضرخدمت ہے،

یہ جو دس کروڑ ہیں   (اب تو بیس سے بھی زیادہ ہیں)

جہل کا نچوڑ ہیں

ان کی فکر سو گئی

ہر امید کی کرن

ظلمتوں میں کھو گئی

یہ خبر درست ہے

ان کی موت ہو گئی

بے شعور لوگ ہیں

زندگی کا روگ ہیں

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں