پاکستان کا حاکم طبقہ اور ٹیکس چوری کرنے کے طریقے
24 جون 2022لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اس چوری میں سب سے آگے حاکم طبقہ ہے، جس سے تعلق رکھنے والے جاگیردار، سرمایہ دار اور تاجر مسلم لیگ ن، پی پی پی، پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علما اسلام فضل الرحمان گروپ اور دوسری سیاسی جماعتوں کا حصہ ہیں۔
وزیر اعظم نے یہ اعلان معاشی ماہرین کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آج کیا، جس میں انہوں نے تمام سیکٹرز پر چار فیصد اور تیرہ سیکٹرز پر دس فیصد سپر ٹیکس لگانے کا اعلان کیا۔ ان شوگر، آٹو، گیس، بینکنگ اور سیمنٹ سمیت کچھ اور انڈسٹریز شامل ہیں۔ وزیر اعظم کے بیان کے بعد وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک وضاحتی بیان میں کہا کہ یہ یک وقتی ٹیکس ہو گا، جو گزشتہ چار بجٹوں کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جن انڈسٹریز پر اس ٹیکس کا اطلاق ہو گا، ان کا ٹیکس ریٹ انتیس سے انتالیس فیصد ہو جائے گا۔
سیاست دان معمولی ٹیکس دیتے ہیں
ماضی میں فیڈرل بورڈ آف ریوینیو سے وابستہ رہنے والے ٹیکس ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں کی اکثریت جاگیردار اور سرمایہ دار گھرانوں سے آتی ہے اور وہ بہت معمولی ٹیکس دیتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''زرعی ٹیکس اب صوبائی حکومتیں اکٹھا کرتی ہیں اور چاروں صوبوں میں جمع ہونے والا یہ ٹیکس کچھ ارب روپے کا ہوتا ہے۔ اگر صحیح معنوں میں زرعی ٹیکس لگایا جائے تو ملک پانچ سو ارب روپے سے چھ سو ارب روپے حاصل کر سکتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق جائیداد کے ٹیکسز میں بھی بہت ہیرا پھیری ہے، ''سرکاری اداروں میں سیاست دان سمیت بقیہ لوگ، جو اثاثے ظاہر کرتے ہیں، ان کی قیمت خرید لکھتے ہیں۔ یعنی اگر چالیس برس پہلے کسی پلاٹ کی قیمت دس لاکھ تھی اور اب وہ چھ کروڑ کی ہے، تو وہ دس لاکھ لکھیں گے۔ حکومت نے اس کی مارکیٹ ویلیو لگائی تھی لیکن وہ بھی اصل مارکیٹ ویلیو سے بہت کم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ حکومتی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے بھی ٹیکس نہیں دیتے بلکہ خریدار اور بیچنے والا اس کی قیمت باہمی رضا مندی سے طے کر لیتے ہیں۔‘‘
سیاست دانوں کے اثاثے اور مارکیٹ ویلیو
واضح رہے کہ کئی ناقدین نے آصف علی زرداری، عمران خان، بلاول بھٹو زرداری، شہباز شریف اور حمزہ شریف سمیت کئی سیاست دانوں کے اثاثوں کی سرکاری اداروں کو دی جانے والی قیمتوں پر بہت تنقید کی ہے اور اسے مارکیٹ ویلیو سے بہت کم قرار دیا ہے۔ مثال کے طور ناقدین کہتے ہیں کہ عمران خان نے بنی گالہ کے گھر کی قیمت جبکہ شریف اور زرداری گھرانوں نے اپنی جائیدادوں کی قیمتیں اپنے اثاثوں میں مارکیٹ ویلیو سے بہت کم لکھی ہیں۔ اکرام الحق کا کہنا ہے کہ اگر بارہ سو سے زائد اراکین پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان سے مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ٹیکس وصول کیا جائے تو اربوں روپیہ حاصل کیا جا سکتا ہے، جب کہ اگر یہ طریقہ پورے ملک میں نافذ ہو تو ہمیں عام آدمی پر سترہ فیصد جی ایس ٹی لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
کم بِل بنانے کا مسئلہ
پنجاب میں تاجر اور مقامی صنعت کاروں کی ایک بڑی تعداد مسلم لیگ ن کی حمایت کرتی ہے جب کہ کے پی میں وہ پی ٹی آئی کے حامی ہے۔ سندھ اور ملک کے کچھ دیگر علاقوں میں تاجر اور مقامی صنعت کاروں کی ایک اچھی خاصی تعداد پی پی پی کی حمایت کرتی ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ٹیکس امور کے ماہر طالب حسین کا کہنا ہے کہ اثر ورسوخ رکھنے والے یہ تاجر و مقامی صنعت کار انڈر انوائسنگ کے ذریعے ٹیکس چوری کرتے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گارمینٹس اور دوسری صنعتوں سے وابستہ سرمایہ دار اگر ڈسٹربیوٹرز یا ہول سیل سپلائرز کو اپنی پراڈکٹ پچاس کروڑ کی بیچتے ہیں تو انوائس میں پچیس کروڑ ظاہر کرتے ہیں اور ٹیکس پھر پچیس کروڑ کے حساب سے دیتے ہیں۔ یہ صورت حال تاجروں کی بھی ہے۔ تاہم ایکسپورٹ میں ایسا کرنا مشکل ہے۔‘‘
طالب حسین کے بقول اگر کسی سرمایہ دار نے اپنی ہی کوئی کمپنی دوسرے ملک میں کھولی ہے، تو وہ منی لانڈرنگ کر سکتا ہے اور اوور انوائسنگ بھی کرتا ہے، ''ایسا کرنا بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ ممکن نہیں ہے لیکن کچھ پاکستانیوں نے اپنی ہی ذیلی کمپنیاں دوسرے ممالک میں کھول رکھی ہیں، جہاں وہ ڈالرز بھیجتے ہیں اور بعد میں ایکسپورٹ کے نام پر اس پیسے کو وہ وائٹ کر لیتے ہیں۔‘‘
’جاگیردار بالکل ٹیکس نہیں دیتے‘
پاکستان میں سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد جاگیر طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق یہ بالکل کوئی ٹیکس نہیں دیتے، ''آپ ایف بی آر کی ویب سائٹس سے ابھی حالیہ برسوں کا ہی ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں اور وہاں پیشے میں کئی سیاست دانوں نے زراعت لکھا ہے اور ٹیکس صفر ہے۔ حالانکہ ان پر ٹیکس بھی بہت معمولی ہے لیکن یہ وہ ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے جب کہ ہمارے منتخب نمائندوں کی رہائش سے لے کر گاڑی تک سب ٹیکس فری ہے کیونکہ اس پر پیسہ عوام کا خرچ ہوتا ہے۔‘‘
ہیرا پھیری کی وجوہات
ملک کے کئی حلقے سیاست دانوں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنے اثاثوں کی قیمتیں بہت کم ظاہر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شریف نے اپنے گیارہ مکانات کی قیمت صرف تیرہ کروڑ روپے بتائی ہے۔ طالب حسین کا کہنا ہے کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ سیاست دانوں نے قوانین بنانے میں بڑی ہیرا پھیری کی ہے، ''اگر میں نے تیس برس پہلے کوئی زمین دس لاکھ کی خریدی تھی اور اب وہ پچاس کروڑ کی ہے تو ٹیکس مجھے دس لاکھ کے حساب سے ہی دینا ہے۔ یہ عام بات ہے کہ جو زمین جتنی پرانی ہو گی، وہ اتنی ہی مہنگی ہو جائے گی۔ لیکن یہاں مہنگی زمین پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔‘‘
طالب حسین نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کوئی زمین اس سال لے کر ایک سال بعد بیچتے ہیں تو ٹیکس کی زیادہ شرح ہے جبکہ چھ برس پرانی زمین پر شرح زیرو ہے۔
اکرام الحق کا خیال ہے کہ اس کے لیے مارکیٹ ویلیو کے حوالے سے ٹیکس لگایا جانا ضروری ہے تاکہ اشرافیہ کہ ہاتھوں اس ٹیکس چوری کو روکا جا سکے۔