پاکستانی وزیراعظم عمران خان رواں ماہ سعودی عرب کے مجوزہ دورے پر ملک کے موجودہ معاشی بحران کے پیش نظر 4 ارب ڈالر کے آسان قرضے پر مذاکرات کریں گے۔ پاکستان نرم شرائط پر قرض کے لیے چین اور دیگر ذرائع سے بھی رابطے میں ہے۔
اشتہار
اسلام آباد کی حتیٰ الوسع کوشش ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے مزید قرض نہ لے۔ تاحال پاکستان عالمی مالیاتی ادارے کا 6 ارب ڈالر کا مقروض ہے جس کے باعث مزید ادھار لینے کے لیے سخت ترین شرائط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان کی بد حال معیشت کی بنیاد پر پاکستان IMF سے صرف 2.85 ارب ڈالر قرض قدرے کم سخت شرائط پر حاصل کرسکتا ہے۔ پاکستان کو اقتصادی استحکام کے لیے 2018ء اور 2019ء کے لیے 12.5 ارب ڈالرکا سرمایہ درکار ہوگا جب کہ پہلے ہی اسلام آباد متعدد غیر ملکی قرائض میں دھنسا ہوا ہے۔
صورتحال کو مزید حقیقت پسندانہ طریقے سے واضح کرنے کے لیے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ امریکا کی عدم مخالفت کی صورت میں بھی پاکستان کو IMF سے مالی معاونت کے لیے کئی کڑی ضمانتیں دینا ہوں گی۔ IMF میں نئی قانونی اصلاحات کے باعث پہلے سے مقروض ممالک کے لیے مزید مالی قرائض کا حصول تقریباً ناممکن بنادیا گیا ہے۔
اگر وزیراعظم عمران خان کڑی ترین شرائط پر آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض کے لیے تیار بھی ہوجائیں تو مزید 6.5 ارب ڈالر کے لیے پاکستان کو دیگر ذرائع سے رجوع کرنا ہی ہوگا۔ اکتوبر میں قرائض کی فراہمی کے باعث پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کو روکا جاسکتا ہے۔ فی الوقت پاکستان میں ایک امریکی ڈالر کی قدر 123 روپے تک جاپہنچی ہے۔ موجودہ تشویشناک اقتصادی صورتحال کا تقاضہ ہے کہ پاکستان اپنی تیل کی ضروریات اور دیگر درآمدات میں 15 فیصد تک کمی کرے اور فوری طور پر برآمدات میں اضافہ کے لیے اصلاحات اور اقدامات بھی کیے جائیں۔
آصف علی زرداری اور نواز شریف کے ادوار حکومت میں بجلی کی پیداوار میں کمی برآمدات کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوئی۔ نتیجتاً درآمدات اور برآمدات کا توازن یکسر بگڑ گیا۔ مزید برآں غیر ملکی پاکستانیوں کی ترسیل زر میں بھی تقریباً 10 فیصد کمی واقع ہوئی۔ یوں نئی حکومت کے لیے نہ صرف مزید قرائض کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے بلکہ آئی ایم ایف کی تجویز کردہ اصلاحات ملک کی ناگزیر ضرورت بن چکی ہیں چاہے عالمی مالیاتی ادارہ قرض نہ بھی فراہم کرے!
پاکستان گزشتہ دہائیوں میں پرانے قرضے چکانے کے لیے مزید ادھار حاصل کرتا رہا ہے جس کا نتیجہ قرضوں کا موجودہ حالیہ بوجھ ہے جو نیم ساکن معیشت کا سبب بنا ہے۔ عمران خان حکومت کو نہ صرف زر کا حصول سابقہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے درکار ہے بلکہ ملک کی معیشت کو رواں کرنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔ بیرونی قرضوں کی بروقت عدم ادائیگی عالمی مالیاتی نظام سے پاکستان کو خارج کرسکتی ہے۔ یوں بین الاقوامی اقتصادی نظام میں فعال رہنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے اور ورلڈ بینک دونوں کی تجویز کردہ اصلاحات پر عمل ناگزیر ہے ،ورنہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری ممکن نہ ہوگی کیونکہ سرمایہ کار متزلزل معیشت میں زر لگانے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہیں گے۔
چین سے دو ارب ڈالر اور سعودی عرب سے چار ارب ڈالر قرض لینے سے پاکستان فوری طور پر نادہندہ ہونے سے محفوظ ہوجائے گا جبکہ ایک ارب ڈالر کا نرم شرائط پر اسلامی ترقیاتی بینک سے قرض دشواریوں میں کمی کا باعث ہوگا۔
نواز حکومت میں بھی چین سے آسان شرائط پر قرض حاصل کیا گیا تھا جبکہ سعودی عرب نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی گرانٹ بھی دی تھی۔ ان دونوں ہمسایہ اور دوست ممالک سے قرض بنا طویل اور تفصیلی مذاکرات کے حاصل کرنا حالات کی سنگینی کا تقاضہ ہے ۔ ہمسایہ ملک ایران نہ صرف امریکا کی پابندیوں کا شکار ہے بلکہ FATF کی بلیک لسٹ میں بھی موجود ہے۔ ایران خود گوناگوں مسائل اور قدغنوں کا شکار ہے ایسے میں تہران حکومت کی طرف سے ایسی مالی امداد کی پیشکش نہ آئی ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے امکانات نظر آتے ہیں۔
پاکستان کو ترقیاتی امداد دینے والے دس اہم ممالک
2010ء سے 2015ء کے دوران پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والے دس اہم ترین ممالک کی جانب سے مجموعی طور پر 10,786 ملین امریکی ڈالرز کی امداد فراہم کی گئی۔ اہم ممالک اور ان کی فراہم کردہ امداد کی تفصیل یہاں پیش ہے۔
تصویر: O. Andersen/AFP/Getty Images
۱۔ امریکا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C.Kaster
۲۔ برطانیہ
برطانیہ پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔ برطانیہ نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 2686 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Dunham
۳۔ جاپان
تیسرے نمبر پر جاپان ہے جس نے سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 1303 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Farooq Ahsan
۴۔ یورپی یونین
یورپی یونین کے اداروں نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مذکورہ عرصے کے دوران اس جنوبی ایشیائی ملک کو 867 ملین ڈالر امداد دی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Katsarova
۵۔ جرمنی
جرمنی، پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا پانچواں اہم ترین ملک رہا اور OECD کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ پانچ برسوں کے دوران جرمنی نے پاکستان کو قریب 544 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Imago/Müller-Stauffenberg
۶۔ متحدہ عرب امارات
اسی دورانیے میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 473 ملین ڈالر کی ترقیاتی امداد فراہم کی۔ یو اے ای پاکستان کو ترقیاتی کاموں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۷۔ آسٹریلیا
ساتویں نمبر پر آسٹریلیا رہا جس نے ان پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 353 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Bäsemann
۸۔ کینیڈا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران کینیڈا نے پاکستان کو 262 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں دیے۔
تصویر: Getty Images/V. Ridley
۹۔ ترکی
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرنے والے اہم ممالک کی فہرست میں ترکی نویں نمبر پر ہے جس نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 236 ملین ڈالر خرچ کیے۔
تصویر: Tanvir Shahzad
۱۰۔ ناروے
ناروے پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا دسواں اہم ملک رہا جس نے مذکورہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 126 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/M. Jung
چین
چین ترقیاتی امداد فراہم کرنے والی تنظیم کا رکن نہیں ہے اور عام طور پر چینی امداد آسان شرائط پر فراہم کردہ قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ چین ’ایڈ ڈیٹا‘ کے مطابق ایسے قرضے بھی کسی حد تک ترقیاتی امداد میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ صرف سن 2014 میں چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں کے لیے 4600 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
سعودی عرب
چین کی طرح سعودی عرب بھی ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے سن 1975 تا 2014 کے عرصے میں پاکستان کو 2384 ملین سعودی ریال (قریب 620 ملین ڈالر) دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber
12 تصاویر1 | 12
ترکی اپنے اندرونی اور علاقائی مسائل خصوصاً شامی مہاجرین کی موجودگی کے باعث قرض کی فراہمی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
یوں سعودی عرب کے دورے کے دوران پاکستانی وفد جہاں طویل المدتی قلیل سودی قرض پر مذاکرات کرے گا وہاں دنیا کے امیر اسلامی ملک سے پاکستانی برآمدات میں اضافہ پر بھی بھرپور بحث ہونی چاہیے۔ پھل، سبزیاں اور دیگر زرعی اجناس کی سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو برآمدات کی وسیع گنجائش موجود ہے۔ مزید برآں سعودی عرب میں تین لاکھ سے زائد پاکستانیوں کا گھر ہے جو تقریباً 8 ارب ڈالر سالانہ پاکستان کو زرمبادلہ فراہم کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسد عمر کے لیے سعودی عرب میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کے کوٹے میں اضافے کی کامیاب کوشش غیر ملکی زرمبادلہ کی ترسیل کو مزید تقویت دینے کا باعث ہوگی۔ حالیہ دوروں کے دوران اعلیٰ سطحی سعودی وفد نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے بیشتر منصوبوں پر پیشرفت کا جائزہ لیا ہے۔ پس سعودی عرب، چین اور اسلامی ترقیاتی بینک سے قرضوں کا حصول پاکستان کی معاشی اور اقتصادی سالمیت کے لیے ناگزیر ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
’حلال سیاحت‘: مسلمان سیاح کن ممالک کا رخ کر رہے ہیں؟
’کریسنٹ ریٹنگ‘ اور ماسٹر کارڈ کی تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ’حلال سیاحت‘ تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور آئندہ دو سال میں ’مسلم ٹریول مارکیٹ‘ کا حجم 220 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
تصویر: Reuters/O. Orsal
1۔ ملائیشیا
’گلوبل مسلم ٹریول انڈیکس 2018‘ کے مطابق ملائیشیا 80.6 کے اسکور کے ساتھ مسلمان سیاحوں کے لیے سب سے بہترین ملک ہے۔ ملائیشیا کو حلال خوراک، عبادت کی سہولت اور مسلم عقیدے کے لوگوں کے لیے سازگار رہائش کے حوالے سے بہتر درجہ بندی ملی۔ ملائیشیا بیرون ملک جانے والے مسلمان کی تعداد کے اعتبار سے بھی دوسرے نمبر پر رہا۔
اس انڈیکس میں مسلمانوں کے لیے سیاحت کے اعتبار سے دوسرا بہترین ملک انڈونیشیا قرار پایا جس کا مجموعی اسکور 72.8 رہا۔ سیاحت کی غرض سے بیرون ملک سفر کرنے والے انڈونیشی مسلمان اپنی تعداد کے لحاظ سے مسلم دنیا میں چھٹے نمبر پر ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Berry
2۔ متحدہ عرب امارات
اس عالمی درجہ بندی میں انڈونیشیا کے ساتھ مشترکہ طور پر دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات ہے جس کا مجموعی اسکور بھی 72.8 ہے۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا کی نسبت ویزے کے حصول اور حلال ریستورانوں کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کو کم پوائنٹس ملے۔ یو اے ای بیرون ملک سفر کرنے والے مسلمان سیاحوں کی تعداد کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/Kai-Uwe Wärner
4۔ ترکی
اس برس کے گلوبل مسلم ٹریول انڈیکس میں ترکی چوتھے نمبر پر ہے اور اس کا مجموعی اسکور 69.1 رہا۔ تاہم سفری سہولیات کے اعتبار سے ترکی کو سب سے زیادہ پوائنٹس دیے گئے۔ ترکی اپنے ہاں سے بیرون ملک جانے والے سیاحوں کی تعداد کے اعتبار سے بھی چوتھے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
5۔ سعودی عرب
68.7 کے مجموعی اسکور کے ساتھ اس برس سعودی عرب پانچویں نمبر ہے۔ سیاحت کے لیے موزوں ماحول کے ضمن میں سعودی عرب چھٹے جب کہ حلال خوراک اور عبادت کی سہولیات کے حوالے سے تیسرے نمبر پر رہا۔ سیاحت کے لیے بیرون ملک جانے والے مسلمان شہریوں کی تعداد کے اعتبار سے سعودی عرب دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
6۔ قطر
خلیجی ملک قطر چھٹے نمبر پر ہے جس کا مجموعی اسکور 66.2 ہے۔ قطر سیاحت کے لیے بیرون ملک جانے والے مسلمان شہریوں کی تعداد کے اعتبار سے 12ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online/AGF
6۔ سنگاپور
سنگاپور بھی 66.2 کے مجموعی اسکور کے ساتھ قطر کے ہمراہ مشترکہ طور پر چھٹے نمبر پر رہا۔ تاہم یہ امر بھی اہم ہے کہ ’حلال سیاحت‘ کے لیے موزوں سمجھے جانے والے ممالک کی ٹاپ ٹین فہرست میں سنگاپور ایسا واحد ملک ہے جہاں کی اکثریتی آبادی مسلمان نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8۔ بحرین
آٹھویں نمبر پر بحرین ہے جس کا ’مسلم دوست سیاحت‘ کے لیے دستیاب سہولیات کے حوالے سے مجموعی اسکور 65.9 رہا۔ ماحول کے مسلم سیاحت کے لیے موزوں ہونے کے اعتبار سے بحرین دسویں نمر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/robertharding
9۔ عمان
خلیجی ریاست عمان 65.9 کے مجموعی اسکور کے ساتھ نویں نمبر پر ہے۔ سیاحت کی غرض سے دیگر ممالک کا رخ کرنے والے مسلمان شہریوں کی تعداد کے حوالے سے خلیج کی یہ ریاست 16ویں نمبر پر رہی۔
تصویر: J. Sorges
10۔ مراکش
دسویں نمبر پر مراکش ہے جسے مجموعی طور پر 61.7 پوائنٹس دیے گئے۔ گزشتہ برس کے انڈیکس میں مراکش ساتویں نمبر پر تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
19۔ پاکستان
مسلمان سیاحوں کے لیے موزوں ہونے کے حوالے سے مرتب کردہ اس انڈیکس میں پاکستان 19ویں نمبر پر ہے اور اس کا مجموعی اسکور 55.1 رہا۔ گزشتہ برس اس انڈیکس میں پاکستان 23ویں نمبر پر تھا۔ سیاحت کے لیے دیگر ممالک کا رخ کرنے والے اپنے مسلم شہریوں کی تعداد کے حوالے سے البتہ پاکستان 13ویں نمبر پر ہے۔