پاکستان کا غزہ میں سکیورٹی فورسز بھیجنے کا فیصلہ؟
4 نومبر 2025
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پیر کو ملکی وبین الاقوامی میڈیا کے صحافیوں و اینکرز کو ملک کی سکیورٹی صورت حال پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی، اسے سیاست سے دور رکھا جائے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا کہ غزہ میں پاکستانی افواج کے بھیجنے کا معاملہ ہمارا نہیں بلکہ حکومت کا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’غزہ میں پاکستانی افواج کی تعیناتی کا سوال فوج کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا‘‘۔ انہوں نے وضاحت کی کہ غزہ میں امن فوج بھیجنے کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی۔
ان کے یہ ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب خبروں کے مطابق پاکستان غزہ کے لیے ایک بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) میں ممکنہ طور پر دستے بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس پر اعتراض کیا ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ کی ثالثی میں فلسطینی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلم ممالک پر مشتمل ایک اتحاد سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ فلسطینی علاقے میں اپنی فورسز تعینات کرے گا۔
یہ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ کی پٹی میں منتخب اور جانچ شدہ فلسطینی پولیس کو تربیت اور معاونت فراہم کرے گی۔ اس کے علاوہ یہ فورس مصر اور اردن کی حمایت سے سرحدی علاقوں کی حفاظت کرے گی۔
اپوزیشن کی جانب سے تنقید
مجوزہ بین الاقوامی استحکام فورس میں افراد کو غیر مسلح کرنے اور سلامتی کے نفاذ جیسے کام بھی شامل ہو سکتے ہیں، جن پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔
ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس معاملے پر مکمل پارلیمانی بحث نہیں کرائی اور خبردار کیا کہ اگر اقوام متحدہ کی واضح نگرانی کے بغیر اس فورس میں شرکت کی گئی تو اس سے پاکستان کو فلسطینیوں کے خلاف جبری اقدامات میں شراکت دار سمجھا جا سکتا ہے۔
غالباﹰ اسی اختلاف کے سبب پاکستانی فوج کے ترجمان کو یہ وضاحت کرنا پڑی کہ ’’غزہ میں پاکستانی افواج جائیں گی یا نہیں یہ ہمارا فیصلہ نہیں، فوج کے فلسطین بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمان کو کرنا ہے۔‘‘
افغان طالبان کبھی ہمارے ’ڈارلنگز‘ نہیں
افغانستان کے ساتھ حالیہ سرحدی جھڑپوں سے پیدا ہونے والی صورت حال کے متعلق ایک سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ پاکستان نے پہلے بھی امن کے لیے افغانستان کو مذاکرات کا موقع دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کبھی ہمارے ’’ڈارلنگز‘‘ نہیں تھے۔
انہوں نے کہا ’’جب کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوا تو پاکستان کا حق ہے کہ اس کے خلاف کارروائی کرے۔ کارروائی کا حق کوئی نہیں چھین نہیں سکتا۔‘‘
انہوں نے یہ الزام دہرایا کہ طالبان حکومت دہشت گردوں کی معاونت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے استنبول مذاکرات کے دوران طالبان کو واضح طور پر بتا دیا تھا کہ دہشت گردی پر قابو پانا ان کی ذمہ داری ہے اور انہیں یہ وضاحت دینی ہو گی کہ وہ ایسا کس طرح کریں گے۔
فوج کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان اب بھی افغان طالبان حکومت کے ساتھ مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے افغانستان میں ڈرون آپریشنز کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان کسی بھی قسم کے مفاہمتی معاہدے کی خبروں کو بھی ’’مکمل طور پر بے بنیاد‘‘ قرار دیا۔
بھارت پر الزام
پاکستانی فوج کے ترجمان نے پریس بریفنگ میں کہا کی بھارت پاکستان کے خلاف سمندر میں ایک ’فالس فلیگ آپریشن‘ کرنا چاہتا تھا، جسے بروقت بے نقاب کر دیا گیا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا، ’’زمین اور آسمانوں پر تو بھارت کو خفت کا سامنا کرنا پڑا، اگر وہ سمندر میں کچھ کرنا چاہتا ہے تو وہاں بھی پاکستان بھرپور جواب دینے کی طاقت رکھتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’اگر دوبارہ حملہ کیا تو پہلے سے زیادہ شدید جواب ملے گا۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین