پاکستان: آرمی چیف کی تقرری دنیا کے لیے اہم کیوں ہے؟
17 نومبر 2022
پاکستان کی جوہری ہتھیاروں سے لیس فوج کی قیادت اگلے ماہ سے نئے سربراہ کے ہاتھ میں ہو گی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور چیف آف آرمی سٹاف مدت ملازمت ختم رواں ماہ ختم ہو جائے گی۔
اشتہار
پاکستان بظاہر ایک نئے بحران کے دھانے پر کھڑا ہے اور فوج اس ملک کا سب سے طاقتور ادارہ ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت ختم ہونے پر پاکستان کو نیا فوجی سربراہ تعینات کرنا ہے۔ اس تقرری کا پاکستان کی ناتواں جمہوریت کے مستقبل پر اہم اثر پڑ سکتا ہے بلکہ پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی اجازت ملے گی یا نہیں، اس بات کا انحصار بھی اسی تقرری پر ہے۔
قیام پاکستان کے 75 برسوں کے دوران فوج نے تین بار اقتدار پر قبضہ کیا اور تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک براہ راست اس اسلامی جمہوریہ پر حکمرانی کی ہے۔ اس دوران بھارت کے ساتھ تین جنگیں بھی لڑی گئیں۔
پاکستان میں جب سویلین حکومت بھی اقتدار میں آتی ہے تب بھی فوجی قیادت ہی سکیورٹی معاملات اور خارجہ امور پر اثر و رسوخ برقرار رکھتے ہیں۔ یعنی نیا فوجی سربراہ ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ بھارت میں ہندو قوم پرست حکومت اور افغانستان میں طالبان جنگجوؤں کی حکومت کے ساتھ کیسے تعلقات رکھے جائیں گے اور آیا پاکستان کا جھکاؤ چین کی جانب زیادہ ہو گا یا امریکہ کی جانب۔
جنرل باجوہ کی میراث
سن 2016 میں آرمی چیف مقرر ہونے والے جنرل باجوہ نے چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران اسلام آباد بیجنگ کے قریب چلا گیا تو جنرل باجوہ نے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے بھی کام کیا۔ انہوں نے گزشتہ برس افغانستان سے مغربی افواج کے انخلا کے دوران امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا۔
جنرل باجوہ نے ملکی معاشی معاملات میں بھی عملی کردار ادا کیا، ساتھ میں ایسے فیصلے کرنے میں بھی دلچسپی لی کہ ملکی بجٹ کا کتنا حصہ فوج کو جائے گا۔
انہوں نے بیجنگ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے اہم دورے کیے اور پاکستان کے لیے مالی امداد حاصل کرنے میں مدد کی۔ جنرل باجوہ ہی نے واشنگٹن سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ کرنے میں مدد حاصل کرنے کے لیے بھی لابنگ کی۔
یہاں تک کہ انہوں نے پاکستان کے سرکردہ صنعت کاروں کو آرمی ہیڈ کوارٹرز میں ہونے والے ایک اجلاس میں طلب کیا تاکہ انہیں مزید ٹیکس ادا کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔
ان کے دور ہی میں سن 2019 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان فضائی جھڑپیں ہوئیں۔ تاہم وہ بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے عوامی سطح پر حمایت کرتے رہے اور کشیدگی میں اضافے سے گریز کرتے بھی دکھائی دیے۔ مثال کے طور پر رواں برس غلطی سے ایک بھارتی میزائل پاکستان کی حدود میں گر کر تباہ ہو گیا تھا، جس کے بعد پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔
سن 2021 کے اوائل میں جنرل باجوہ نے کشمیر کے متنازعہ علاقے میں لائن آف کنٹرول پر دہلی کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کی بحالی کی منظوری دی تھی۔
داخلی سطح پر ان پر سیاسی مداخلت کا الزام عائد کیا گیا۔ سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے سن 2018 میں عمران خان کو وزیر اعظم بننے میں مدد کی تھی۔ اس سال کے اوائل میں عمران خان نے جنرل باجوہ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ان کی حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اشتہار
فوجی سربراہ کا تقرر کیسے کیا جاتا ہے؟
رواں ماہ ریٹائر ہونے والے آرمی چیف ملکی وزیر اعظم کو سینیئر ترین جرنیلوں کی ایک فہرست دیں گے، جس کے بعد وزیر اعظم ان میں سے کسی کا انتخاب کریں گے۔ پاکستانی تاریخ میں ایسا کبھی شاذ و نادر ہی دیکھا گیا کہ چار سینیئر ترین فوجی افسران میں سے کسی کو نیا آرمی چیف بنایا گیا ہو۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال کے لیے ہوتی ہے لیکن اکثر انہیں توسیع بھی دے دی جاتی ہے، جیسا کہ جنرل باجوہ کو بھی توسیع دی گئی تھی۔
فوج کی جانب سے اس بات کی یقین دہانی کے باوجود کہ جنرل باجوہ اس بار مدت ملازمت ختم ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے، یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ سے انہیں ایک مرتبہ پھر سے توسیع دی جا سکتی ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی جگہ لینے والے ممکنہ فوجی افسروں میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، ساحر شمشاد، اظہر عباس اور نعمان محمود کے نام لیے جا رہے ہیں۔
یہ تقرری عالمی سطح پر کیوں اہمیت رکھتی ہے؟
پاکستان کے آرمی چیف اپنی مشرقی سرحد پر جوہری ہتھیاروں سے لیس حریف ملک بھارت کے ساتھ تنازعات کے خطرات سے نمٹنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح مغربی سرحد پر افغانستان کے ساتھ ممکنہ عدم استحکام اور کشیدگی سے نمٹنے میں بھی ان کا کردار اہم ہوتا ہے۔
پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع اور خطے کی غیر مستحکم صورت حال کے باعث واشنگٹن اور بیجنگ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کی حکومتیں پاکستانی فوج کے ساتھ براہ راست تعلقات رکھتی ہیں۔
کئی ممالک نے وقتاً فوقتاً پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت پر سوال اٹھایا ہے۔ پاکستان کے پاس ایک طرف جوہری ہتھیار اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل ہیں تو دوسری جانب اسے بار بار آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینا پڑتا ہے اور ملک میں مغرب اور بھارت مخالف عسکریت پسند گروہ بھی موجود ہیں۔
علاوہ ازیں پشتون اور بلوچ علاقوں میں شورش کی وجہ سے داخلی سلامتی بھی ایک مستقل مسئلہ رہا ہے۔
تمام تر خطرات کے باوجود پاکستانی حکومت اور فوج نے اپنے جوہری ہتھیاروں کے کمانڈ اور کنٹرول اور حفاظت کے بارے میں غیر ملکی خدشات کو مسترد کر دیا ہے۔
یہ تقرری داخلی سطح پر کیوں اہم ہے؟
پاکستانی فوج پر طویل عرصے سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنا غلبہ برقرار رکھنے کے لیے جمہوری عمل میں مداخلت کرتی ہے۔ پاکستان کے 30 میں سے 19 وزرائے اعظم جمہوری طور پر منتخب ہوئے لیکن ان میں سے کسی نے بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی۔
حالیہ عرصے کے دوران سیاست میں اپنی ماضی کی مداخلت کا اعتراف کرنے کے بعد فوج نے کہا ہے کہ وہ اب مزید مداخلت نہیں کرے گی۔ کیا نئے سربراہ بھی اس عزم پر قائم رہیں گے یا نہیں، یہ بات پاکستان کے جمہوری ارتقا کے حوالی سے کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔
دریں اثنا پاکستان ایک اور سیاسی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم شہباز شریف کو قبل از وقت انتخابات میں مجبور کرنے کے لیے ملک گیر تحریک شروع کر رکھی ہے۔
معاشی بحران اور تاریخی سیلابوں سے نبرد آزما ملک میں نئے آنے والے آرمی چیف ممکنہ طور پر سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ش ح/ک م (روئٹرز)
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔