1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاکستان کا ہر سیاست دان اور با اختیار افسر شریک مجرم ہے‘

26 جولائی 2020

ظفروال کے گاؤں وریام کے رہنے والے قدیر اور اس کے بچوں کی زندگیوں کو غربت کی گھن چاٹ رہی تھی۔ شاید اسی لیے قدیر نے فیصلہ کیا کہ وہ اور اس کے بچے اب اس دنیا میں رہنے کے لائق نہیں رہے لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے۔

Ismat Jabeen Bloggerin
تصویر: Privat

اس واقعے میں پورے سچ کا آدھا حصہ قدیر کی نجی زندگی اور اس کے حالات سے متعلق ہے۔ دوسرا حصہ پاکستان کے حکمرانوں اور با اختیار طبقات کے بارے میں ہے، جنہیں اس سے یقینی طور پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ قدیر کون تھا، وہ زندہ بھی ہے یا نہیں اور اس کے بچوں کا کیا بنا؟

 قدیر کی بیوی کچھ عرصہ قبل غربت اور فاقوں سے تنگ آ کر اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ شاید اس سے اپنے بچوں کے فاقے دیکھے نہیں جاتے ہوں گے۔ قدیر نے جو اپنی غربت پر شرمندہ تھا اور خود کو اپنے بچوں کی فاقہ کشی کا ذمے دار سمجھنے لگا تھا، چند روز پہلے اپنے تینوں نابالغ بچوں کو زہر پلایا اور پھر خود بھی وہی زہر پی کر خود کشی کر لی۔

اگلے روز گاؤں کے ایک رہائشی نے چاروں کو بظاہر مردہ حالت میں زمین پر پڑا ہوا دیکھا تو پولیس کو اطلاع کر دی۔ چاروں کو ہسپتال پہنچایا گیا لیکن قدیر کا انتقال ہو چکا تھا۔ اس کے تینوں بچے آخری خبریں آنے تک زندگی اور موت کی کشمکش میں تھے۔ ان کا کیا بنا، کیا وہ بچ گئے؟ پہلے وہ صرف غریب اور فاقہ کش تھے، اب وہ یتیم بھی ہو گئے ہیں۔ لیکن کیا یہ کوئی بڑی بات ہے؟ یہ سوچنے کے لیے وقت بھلا ہے کس کے پاس ہے؟

یہ المناک واقعہ صرف قدیر کی زندگی کا واقعہ نہیں ہے۔ پاکستان میں اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے۔ اس سے قبل پنجاب ہی میں پاک پتن کی رہنے والی ایک خاتون نے بھی غربت سے تنگ آ کر اپنے تینوں بچوں کی جان لے لی تھی اور پھر خود کشی کر لی تھی۔ لیکن رہنے دیجیے، کیا فرق پڑتا ہے؟ اس لیے کہ یہاں سے قدیر کی خود کشی کے واقعے کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے۔

پاکستان میں مذہب کے نام پر اپنی اپنی دکانیں چمکانے والے کئی نام نہاد اور مذہبی تقریبات میں 'عزت ماب‘ کہلانے والے ایسے 'رہنما‘ بھی ہیں، جو کرتے کچھ نہیں، بس مذہب ان کے لیے کروڑوں کی آمدنی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ نوکر شاہی کی مراعات تو ہر وقت بہتا رہنے والا دریا ہیں۔ سیاست دان، وہ تو ہزاروں کی تعداد میں ایسے بھی ہیں کہ کوئی حکومت جمہوری ہو، بظاہر جمہوری یا پوری طرح کسی فوجی آمر کی، وہ اقتدار میں ہی رہتے ہیں۔ انہیں کسی دور میں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ رہی بات اعلی فوجی افسروں کی، تو وہ تو اب اربوں کھربوں کے مالک نکلتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھلا غربت اور فاقہ کشی سے دل برداشتہ ہو کر خود کشی کیوں کرے گا؟

پاکستان جیسے ملک میں جب بھی کوئی بہت مجبور، غریب اور فاقہ کش شہری اپنے ہی بچوں کی جان لے لینے اور اس کے بعد خود کشی کا سوچتا ہے اور پھر اس پر عمل بھی کر گزرتا ہے، تو وہ خود کو ایسے گھپ اندھیرے میں اور ایسی گھٹن میں قید پاتا ہے، جہاں نہ تو کوئی روشنی ہوتی ہے اور نہ ہی سانس لینے کے لیے ہوا۔

یہ بھی پڑھیے:

ہمارے معاشرے کی ’حلال خود کشیاں‘

بھارت میں ہر گھنٹے 15 خودکشیاں

 یہ خود کشی ایسے پاکستانی تو کر نہیں سکتے، جو دولت کی نہروں میں تیر رہے ہیں۔ اسی لیے وہ اس درد کو سمجھ بھی نہیں سکتے، جو گرمیوں میں ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر اپنا جسمانی وزن کم کرنے کے لیے ڈائٹنگ کرتے ہیں اور پیاس لگے تو بائیو اورنج کا جوس پی لیتے ہیں اور منرل واٹر تو ان کے کتے بھی پی لیتے ہیں۔

اس پوری بحث میں سوال صرف ایک ہے، لیکن اس کی کئی جہتیں ہیں؟ قدیر کا خون کس کے سر ہے؟ حکمرانوں کے، اپوزیشن سیاست دانوں کے، مذہبی رہنماؤں، فوجی افسروں کے یا پھر سرمایہ داروں کے سر؟ قصور وار کیا وہ حکمران ہیں، جہنوں نے پاکستان کو 'مدینے کی ریاست‘ جیسی ریاست بناتے بناتے صومالیہ اور ایتھوپیا جیسا ملک بنا دیا ہے؟ یا ملکی سرحدوں کے وہ محافظ، جن کے مطابق جوہری اثاثے انتہائی ناگزیر ہیں اور ملکی دفاع کو بجٹ کا سب سے بڑا حصہ ملنا چاہیے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قصور 'اسلام کے قلعے‘ کے طور پر پاکستان کی دینی نظریاتی حفاظت کے لیے ہمہ وقت کمر باندھے ان 'بے لوث‘ مذہبی رہنماؤں کا ہو، جن کے لیے رمضان کے مہینے میں ایک دن کی افطاری کے لیے دستر خوان پر نظر آنے والے پکوان اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ کسی غریب پاکستانی کو سال بھر میں دستیاب نہیں ہوتے۔

ویسے پاکستان میں چند سیاست دان ایسے بھی ہیں، جو اس وقت تو اقتدار میں نہیں لیکن جن کا شمار ایشیا کے امیر ترین انسانوں میں ہوتا ہے۔ اربوں کھربوں کے مالک اور 'عظیم تر سیاسی اصولوں کے لیے بے مثال قربانیاں دینے والے‘ ان 'قومی رہنماؤں‘ کی پچھلی نسل تو اتنی امیر نہیں تھی، جتنے وہ آج خود ہیں۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ باوردی یا بے وردی، جمہوری یا جبری طرز حکومت اور اسلامی یا سوشلسٹ نظام معیشت والی ایک عظیم پاکستانی ریاست قائم کرنے کے دعوے دار آج تک جتنے بھی حکمرانوں نے پاکستان کو سوئٹزرلینڈ بنانے کے دعوے کیے تھے، وہ پاکستان کو سوئٹزرلینڈ تو نہ بنا سکے، لیکن انہوں نے پاکستان کو آج 2020ء میں کم از کم ویسا بھی نہیں چھوڑا، جیسا یہ ملک انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں تک تھا۔

اس تحریر میں پاکستان میں محنت مزدوری پر مجبور بچوں، اسکول جانے کی عمر کے لیکن کسی بھی اسکول کا منہ نہ دیکھنے والے نابالغ شہریوں، غربت سے تنگ آ کر اپنے ہی جگر گوشوں کے قاتل بن جانے والے والدین، ہر دور میں برسراقتدار سیاسی جماعت میں شامل ہو جانے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور کسی بھی دور میں بغیر وزارت کے نہ رہنے والے 'قوم کے مسائل کے غم سے نڈھال‘ شرفاء سمیت ہر طرح کے معاملے میں بہت سے اعداد و شمار شامل کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ایسے کسی 'قابل اعتماد تازہ ترین ڈیٹا‘ کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

ذہن میں رکھنے کی باتیں صرف دو ہیں:

پاکستانی امراء کے بچے تو پہلے بھی ملک سے باہر ہی ہوتے ہیں اور ان امراء کا زیادہ تر سرمایہ اور ان کی ایک ٹانگ بھی بیرون ملک ہی ہوتے ہیں۔ جو تقریباﹰ چالیس فیصد پاکستانی اس وقت غربت کا شکار ہیں، اگر وہ اسی طرح فاقوں سے تنگ آ کر خود کشیاں کرتے رہے، تو کئی طرح کے محافظوں کی طرف سے ملک کی زمینی، فضائی، بحری، نظریاتی اور اسلامی حدود کی حفاظت کس کے لیے کی جائے گی اور جوہری اثاثے کن کی زندگیوں کی حفاظت کریں گے؟ بات بات پر 'مدینے کی ریاست‘ کا حوالہ دے کر پاکستان میں عملاﹰ خراب کو خراب تر کر دینے والوں کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس ریاست میں کتوں کا بھوکا ہونا تو ایک طرف انسان بھی بھوک سے تنگ آ کر اپنے ہی خاندان ختم کرتے جا رہے ہیں۔

۔ نارووال میں ظفروال کے گاؤں وریام کے جس رہائشی نے اپنے بچوں کے خالی پیٹ ہمیشہ کے لیے بھر دینے کی خاطر انہیں زہر پلا دیا تھا، اس قدیر اور اس کے بچوں کو جس روٹی سے محروم کیا گیا تھا، اس کا ایک ایک نوالہ چوری کرنے والے پاکستان کے حکمران بھی تھے، بڑی بڑی توندوں والے سرکاری افسر بھی، ہر نئی حکومت کے آتے ہی اپنا سیاسی بستر بدل لینے والے ہمارے 'باضمیر‘ سیاست دان بھی اور وہ امیر طبقہ بھی جو چینی یا ٹماٹر کی مصنوعی قلت کے کسی بھی بحران میں غریب نہیں بلکہ امیر تر ہوتا جاتا ہے۔ پاکستان کا ہر سیاست دان، ہر با اختیار افسر، ہر با اثر شہری قدیر کی موت کا شریک مجرم ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں