پاکستان کا یوم آزادی: مثبت پہلو بھی پیش نظر رہنے چاہییں
14 اگست 2023بھارت اور پاکستان کے درمیان اثاثوں کی غیر منصفانہ تقسیم، زراعت کے لیے پانی کی بندش، مہاجرین کا سیل رواں، وسائل کی کمی اور خطے کی گھمبیر صورتحال کے باوجود پاکستان کئی چیلنجوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے آگے بڑھتا گیا۔ اس دشوار گزار سفر میں اسے مشرقی پاکستان سے علیحدگی کے صدمے سے بھی دوچار ہونا پڑا اور کئی ایسی سازشوں کا مقابلہ کرنا پڑا، جن کا مقصد ملک کو اندرونی طور غیرمستحکم بنانا تھا۔
آزادی کے ابتدائی برسوں میں کچھ انتہا پسند تنظیموں کے رہنماؤں نے دعوی کیا تھا کہ وہ پاکستان کو نگل لیں گے لیکن ان دعوؤں کے برعکس پاکستان آج بھی موجود ہے اور عالمی جغرافیہ پر ایک مضبوط حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
معاشی ترقی
جدید دور میں کسی بھی ملک کی کامیابی کے پیمانوں میں ایک پیمانہ معاشی ترقی ہے۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو ملک کا بڑا حصہ زراعت پر انحصار کرتا تھا جبکہ بھارت کے مقابلے میں یہ ایک چھوٹی مارکیٹ بھی تھا۔ پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقوں میں معاشی ڈھانچہ انتہائی کمزور تھا جبکہ اس کو ملنے والے اثاثوں کی تقسیم بھی منصفانہ نہیں تھی اور اپنے حصے کے وسائل کے حصول کے لیے پاکستان کو بہت جدوجہد کرنی پڑی۔
گزشتہ برس پاکستان کی وزارت خزانہ کے ایک تجزیے کے مطابق تقسیم ہند کے وقت پاکستان کی آبادی تقریباً تین کروڑ تھی اور ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اس کو زیادہ تر زرعی اجناس درآمد کرنا پڑتی تھیں لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ مثال کے طور پر دو ہزار بائیس میں گندم کی پیداوار چھبیس اعشاریہ چار ملین ٹن تھی، جو 1948ء میں صرف تین اعشاریہ چار ملین ٹن تھی۔ کاٹن کی پیداوار اس وقت صرف ایک اعشاریہ دو ملین بیلز تھی، جو گزشتہ برس تقریبا آٹھ اعشاریہ تین ملین بیلز تک گئی۔
انیس سو اڑتالیس میں گنے کی پیداوار صرف پانچ اعشاریہ پانچ ملین ٹن تھی، جو گزشتہ برس 88 اعشاریہ سات ملین ٹن تک پہنچی۔ چاول، جو پاکستانیوں کی خوراک کا ایک اہم حصہ تھا، اس کی پیداوار 1948ء میں صرف صفراعشاریہ سات ملین ٹن تھی، گزشتہ برس تک یہ نو اعشاریہ تین ملین ٹن تک پہنچی۔
زرعی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کو پانی کی شدید ضرورت تھی، جس کے لیے پاکستان نے چھوٹے اور بڑے ڈیم بنائے اور پانی کی دستیابی میں بہت حد تک اضافہ کیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انیس سو پینسٹھ چھیاسٹھ میں پاکستان میں پانی کی دستیابی صرف تریسٹھ اعشاریہ نو ملین ایکڑ فیٹ تھی، جو 2022ء تک 131 ملین ایکڑ فیٹ تک پہنچ گئی۔
تمام مشکلات کے باوجود پاکستان کئی مواقعوں پر ٹیکسٹائل، فارماسیوٹیکل اور زرعی اجناس سے متعلق اشیا کے بڑے ایکسپورٹرز میں شامل ہوا۔ آج یہ اسلامی جمہوریہ پرچیزنگ پاور پیرٹی کے حوالے سے دنیا کی چوبیسویں بڑی معیشت ہے جبکہ مجموعی قومی پیداور(جی ڈی پی) کے لحاظ سے پاکستان دنیا کی 44 ویں بڑی معیشت ہے۔
سیاسی محاذ
معاشی محاذ کے علاوہ پاکستان نے سیاسی محاذ پر بھی ترقی کی۔ گو کہ پاکستان کے آئین کے بننے میں تاخیر ہوئی، تا ہم سیاسی قیادت نے ملک کا پہلا آئین 1956ء میں تیار کیا۔ 1962ء میں دوسرا آئین آیا۔ تاہم عوامی سطح پر جس آئین کو پہلا تسلیم کیا جاتا ہے وہ 1973ء کا آئین تھا، جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت شامل تھی۔
کئی سیاسی بحرانوں کے باوجود پاکستان کی سیاسی قیادت نے کئی مراحل پر مسائل کو دانشمندانہ طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی اور اس کی ایک مثال میثاق جمہوریت یا چارٹر آف ڈیموکریسی تھا، جو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان 2006 ء میں طے پایا۔ اس چارٹر آف ڈیموکریسی کی وجہ سے پاکستان میں اٹھارہویں آئینی ترمیم ممکن ہوئی، جس کے تحت صوبوں کو بہت سارے اختیارات منتقل ہوئے اور پاکستان آج آئینی لحاظ سے ایک بہترین وفاقی ریاست ہے۔
سفارتی محاذ
پاکستان جب معرض وجود میں آیا، تو دنیا پہلے ہی سرد جنگ میں گھری ہوئی تھی کیونکہ بھارت کا رجحان پہلے ہی سوویت یونین کی طرف تھا، پاکستان نے اس وقت مغربی دنیا سے اپنے تعلقات بہتر کرنے میں ہی اپنے لیے بہتری سمجھی۔ پاکستان کو اسٹریٹیجک محاذ پر ایک بڑے اور طاقت ور پڑوسی کا سامنا تھا، اس لیے پاکستان ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن اور سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن کا حصہ بنا۔
عالمی سطح پر پاکستان غیر وابستہ ممالک کی تنظیم سے بھی منسلک رہا اور فلسطین اور دوسری اقوام کی حمایت بھی کرتا رہا۔ عالمی سیاسی منظر نامے پر اس نے کوشش کی کہ وہ سوویت یونین اور امریکہ دونوں سے تعلقات بہتر رکھے لیکن اسٹریٹیجک مجبوریوں کی وجہ سے اسے مغربی کیمپ کے قریب جانا پڑا۔ اس کیمپ سے قربت کے باوجود اس نے اشتراکی چین سے بھی دوری اختیار نہیں کی۔
عالمی سطح پر ایک چھوٹا ملک ہونے کے باوجود بھی پاکستان نے 70 کی دہائی میں چین اور امریکہ کے تعلقات بہتر کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا جبکہ مغربی کیمپ کا حصہ بن کر دنیا کی ایک بڑی طاقت سوویت یونین کو شکست دینے میں بھی پاکستان کا کردار اہم رہا۔ بین الاقوامی امور کے کئی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر پاکستان افغانستان کی جنگ میں امریکہ کا ساتھ نہیں دیتا تو سوویت یونین کو وہاں کبھی شکست نہیں ہوتی اور امریکہ عالمی سیاسی منظر نامے پر کبھی واحد عالمی طاقت کے طور پر نہیں ابھرتا۔
خارجہ محاذ پر پاکستان کا واسطہ تین بڑی طاقتوں سے پڑا یعنی سوویت یونین، امریکہ اور چین۔ آج بھی اس کے سامنے روس، چین اور امریکہ جیسی تین بڑی طاقتیں ہیں۔ پاکستان ان تینوں سے ہی بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک طرف پاکستان کی مغربی دنیا سے بہتر تعلقات رکھنے کی کوشش جاری ہے اور دوسری طرف پاکستان، چین اور روس کے ساتھ مل کرعلاقائی یکجہتی کو بھی فروغ دے رہا ہے۔
پاکستان کی جغرافیائی حیثیت انتہائی اہم ہے۔ اس وقت پاکستان وسطی ایشیا کا گیٹ وے سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے قریب سمندر سے محروم پانچ وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک دنیا کی پانچ سے تیس فیصد توانائی کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں۔ ایران اور روس کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے، تو یہ شرح بہت بڑی بنتی ہے۔ جغرافیائی طور پر پاکستان ان تمام ممالک کے لیے اہم ہے۔
دنیا کی دو بڑی مارکیٹیں یعنی بھارت اور چین بھی پاکستان کے قریب ہیں۔ اس لیے پاکستان علاقائی اعتبار سے بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر ہی کئی ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔ چین پاکستان اکنامک کوریڈور کے بعد اس سرمایہ کاری میں دلچسپی مزید بڑھ گئی ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت چین کو بحر ہند تک رسائی مل سکتی ہے جبکہ خطے کے دوسرے ممالک بھی پاکستان کی جغرافیائی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
مشرق وسطٰی کے کئی ممالک نے حال ہی میں پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے جبکہ پاکستان میں حکومتی سطح پر حال ہی میں ایک اقتصادی کونسل کی تشکیل دی گئی ہے، جس کے تحت زراعت اور دوسرے شعبوں کی ترقی کے لیے فوری نوعیت کے اقدامات کیے جائیں گے۔
اگر خطے کے ممالک میں اتحاد اور یکجہتی پیدا ہوتی ہے تو پاکستان صرف ٹرانزٹ فیس کی مد میں اربوں ڈالر کما سکتا ہے جبکہ لاکھوں ایکڑ زمین کو قابل کاشت بنانے کا حالیہ منصوبہ نہ صرف پاکستان کی فوڈ سکیورٹی کو بڑھائے گا بلکہ صنعتوں کے لیے بھی خام مال پیدا کر سکے گا، جس سے پاکستان کی معیشت کو ممکنہ طور پر بہت فائدہ ہوگا۔ اسپیشل اکنامک زون میں آنے والی صنعتیں بھی پاکستان کے لیے ایک علاقائی صنعتی طاقت بننے کا راستہ ہموار کر سکتی ہیں جبکہ پاکستان کی نوجوان آبادی بھی ملک کو نہ صرف انفارمیشن ٹیکنالوجی بلکہ دیگر میدانوں میں بھی ترقی کی منازل طے کرانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔