1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پاکستان کا 17.5 ٹریلین روپے کا بجٹ: قرض پہلے، لوگ بعد میں

عثمان چیمہ
10 جون 2025

پاکستانی حکومت نے مالی سال 2025-26 کے لیے 17.5 ٹریلین روپے کا وفاقی بجٹ پیش کیا ہے، جس میں قرضوں کی ادائیگی اور دفاع ایک بار پھر سب سے بڑے اخراجات کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
پاکستانی حکومت نے مالی سال 2025-26 کے لیے 17.5 ٹریلین روپے کا وفاقی بجٹ پیش کیا ہے۔تصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images

پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے 2025-26 کے لیے پیش کیے گئے وفاقی بجٹ میں دفاع اور قرضوں کی ادائیگیوں کو فوقیت ملنے کے باعث ترقیاتی کاموں اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے مالی گنجائش محدود ہو گئی ہے۔

پاکستان کے نئے بجٹ میں نیا کیا ہو سکتا ہے؟

پاکستان: رواں مالی سال اقتصادی شرح نمو 2.7 فیصد رہنے کی توقع

نصف بجٹ قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے مختص

آج 10 جون کو پیش کیے جانے والے پاکستان کے وفاقی بجٹ کے مطابق، صرف قرضوں کی ادائیگی پر 8.2 ٹریلین روپے خرچ ہوں گے، جو پورے بجٹ کا تقریباً نصف ہے۔ یہ صورتحال ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی عکاسی بھی کرتی ہے۔

دفاعی شعبے کے لیے 2.5 ٹریلین روپے مختص کیے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے 2.1 ٹریلین روپے کے مقابلے میں 0.4 ٹریلین روپے کا اضافہ ہے، جس کے باعث تعلیم، صحت، اور سماجی تحفظ جیسے اہم شعبوں کے لیے مالی وسائل مزید محدود ہو گئے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ پاک-بھارت جنگ کے تناظر میں دفاعی بجٹ میں اضافہ متوقع تھا اور یہ اضافہ ناگزیر تھا۔

پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے 2025-26 کے لیے پیش کیے گئے وفاقی بجٹ میں دفاع اور قرضوں کی ادائیگیوں کو فوقیت ملنے کے باعث ترقیاتی کاموں اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے مالی گنجائش محدود ہو گئی ہے۔تصویر: Raja I. Bahader/Pacific Press/IMAGO

بجٹ میں دیگر اہم مختص رقوم میں ایک ٹریلین روپے پنشن ادائیگیوں کے لیے، 1.9 ٹریلین روپے صوبوں کو گرانٹس اور مالی منتقلیوں کے لیے، 1.2 ٹریلین روپے سبسڈی کے لیے، اور ایک ٹریلین روپے وفاقی حکومت کے روزمرہ امور چلانے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (PSDP)، جسے معیشت کی ترقی کا انجن سمجھا جاتا ہے، اسے محدود کر کے صرف ایک ٹریلین روپے تک کر دیا گیا ہے، جو گزشتہ سال کے 1.4 ٹریلین روپے سے کم ہے، جس سے انفراسٹرکچر اور سماجی ترقی کے منصوبوں میں تاخیر پر خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

کل آمدن 19.2 ٹریلین روپے متوقع

محصولات کے حوالے سے حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ذریعے 14.1 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولی کا ایک بلند ہدف مقرر کیا ہے، جبکہ نان ٹیکس آمدن کو 5.1 ٹریلین روپے تک پہنچانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ کل آمدن 19.2 ٹریلین روپے متوقع ہے، جس میں سے 8.2 ٹریلین روپے صوبوں کو قابل تقسیم محاصل میں ان کے حصے کے طور پر دیے جائیں گے۔

اپنی بجٹ تقریر کے دوران، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے صنعتوں کے لیے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کے ٹیکس بہ نسبت مجموعی قومی پیداوار (ٹیکس ٹو جی ڈی پی) کے تناسب کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، جو اس وقت صرف 10 فیصد ہے۔ حکومت کا ہدف ہے کہ آئندہ برسوں میں اسے 14 فیصد تک لے جایا جائے۔

ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی حوصلہ افزائی کے لیے، وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن کا عمل آسان بنایا جا رہا ہے۔ یکم جولائی سے، نئی ریٹرن فارم میں صرف سات بنیادی سوالات شامل ہوں گے، جس سے افراد اور چھوٹے کاروباری حضرات کے لیے فائلنگ آسان ہو جائے گی۔

آئندہ سال کے لیے شرح نمو کے اہداف

حکومت نے معاشی بحالی کی توقعات کو ظاہر کرنے کے لیے شعبہ جاتی ترقی کے ہدف بھی مقرر کیے ہیں۔ جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 4.2 فیصد، زراعت کا 4.5 فیصد، اور چھوٹی صنعتوں کا 8.7 فیصد مقرر کیا گیا ہے، جبکہ بجٹ میں معاشی بحالی کے لیے ہدف مقرر کیے گئے ہیں، کچھ ایسے خواب بھی ہیں جن کو کامیاب بنانے کے لیے صوبوں کی مدد کی ضرورت ہے، جیسے کہ زرعی ترقی کا ٹارگٹ۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ زراعت کی ترقی تبھی ممکن ہے جب صوبے ایسی پالیسیاں بنائیں جو وفاقی حکومت کے 4.5 فیصد کے ہدف کے مطابق ہوں۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جاری مالی سال کے دوران زراعت کی شرح نمو صرف 0.5 فیصد رہی۔

محصولات کے حوالے سے حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ذریعے 14.1 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولی کا ایک بلند ہدف مقرر کیا ہےتصویر: FAROOQ NAEEM/AFP

کسانوں کے نمائندہ عامر حیات بھندارا نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زراعت ایک صوبہ جاتی موضوع ہے اور اس کے لیے پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ یہ شعبہ ترقی کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ 0.5 فیصد کی زراعت کی موجودہ رپورٹنگ نمو تشویشناک ہے اور ''موجودہ پالیسیوں میں مستقل مزاجی کے بغیر، زراعت میں ترقی کے خواب کو عملی جامہ پہنانا مشکل ہو سکتا ہے۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں