پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں جنوبی افریقہ پہلی بار وائٹ واش
طارق سعید راولپنڈی
8 فروری 2021
پاکستان نے راولپنڈی ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ کو پچانوے رنز سے ہرا کر دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز دو صفر سے جیت لی۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ پاکستان نے جنوبی افریقہ کو ٹیسٹ سیریز میں کلین سویپ کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
اشتہار
اس فتح کے ساتھ ہی پاکستان نے چار سال بعد آئی سی سی ورلڈ رینکنگ میں بھی پانچویں پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں 370 رنز کے مشکل ہدف کا پیچھا کرتے ہوئے پیر کو آخری روز کھانے کے وقفے پر مہمان ٹیم کے اوپنر ایڈن مارکرم نے دیار غیر میں اپنی پہلی ٹیسٹ سینچری مکمل کر لی تھی اور پاکستانی ٹیم دباؤ میں تھی۔ پھر کھانے کے وقفے کے بعد جونہی پاکستان نے دوسری نئی گیند لی، فاسٹ بولرز حسن علی اور شاہین آفریدی نے میچ کا نقشہ ہی بدل دیا۔
26 سالہ حسن علی نے تباہ کن بولنگ کرتے ہوئے پہلی اننگز کی طرح دوسری اننگز میں بھی پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ 2003ء میں بنگلہ دیش کے خلاف پشاور ٹیسٹ میں شعیب اختر کے بعد حسن علی پہلے پاکستانی فاسٹ بولر ہیں، جنہوں نے کسی ہوم ٹیسٹ میں دس وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز پایا۔
شاہین آفریدی نے چار کھلاڑی آوٹ کیے۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم دوسری اننگز میں 274 رنز پر آل آؤٹ ہو گئی۔
اس یادگار میچ کی ایک اور قابل ذکر بات وکٹ کیپر محمد رضوان کی لاجواب سینچری تھی، جنہوں نے دوسری اننگز میں 76 رنز پر پانچ وکٹیں گرنے کے بعد پاکستان ٹیم کو پہلے فہیم اشرف اور پھر ٹیل اینڈرز کے ساتھ مل کر بحران سے نکالا اور اسکور کو298 تک پہنچا دیا۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے محمد رضوان 115 رنز پر ناٹ آوٹ رہے، جس میں 15 شاندار چوکے بھی شامل تھے۔ یہ اس ٹیسٹ سیریز میں کسی بھی کھلاڑی کی دونوں ٹیموں میں سب سے بڑی اننگز تھی۔ محمد رضوان کو مین آف دی سیریز قرار دیا گیا۔
اشتہار
دونوں ٹیموں میں فرق
سابق پاکستانی کپتان وسیم اکرم کے مطابق پاکستانی ٹیم نے حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ حسن علی کا جنون دونوں ٹیموں میں فرق ثابت ہوا۔
وسیم اکرم کہتے ہیں حسن علی مشکل دور سے گزرے ہیں، وہ زخمی ہوکر دو سال ٹیم سے باہر رہے اور ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنی فارم حاصل کی۔
وسیم اکرم کے مطابق حسن علی پاکستان کی ہر فارمیٹ میں ضرورت ہیں۔ میچ کا بہترین کھلاڑی قرار پانے کے بعد خود حسن علی نے کہا، ''میری ٹیم میں ایسی واپسی ہوئی، جس کا خوابوں میں ہی سوچا جا سکتا تھا۔ میرے لیے یہ کارکردگی 24 ماہ ٹیم سے باہر رہنے کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ میں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں ردھم حاصل کیا، جو ٹیسٹ میچوں میں کام آیا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پہلے ان کی فٹنس کا مسئلہ تھا لیکن اب ان کی فٹنس سب کے سامنے ہے۔
ٹیم کا اعتماد بحال ہوا ہے
بابر اعظم کی کپتان کی حیثیت سے یہ پہلی ٹیسٹ سیریزتھی۔ وہ پاکستان کے پہلے کپتان ہیں، جنہوں نے اپنی پہلی ہی ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش مکمل کیا لیکن چار اننگز میں وہ صرف ایک نصف سینچری بنا سکے۔ بابر اعظم نے میچ کے بعد بتایا کہ ان پر کپتانی کا کوئی دباؤ نہیں تھا۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں کپتانی کر کے محظوظ ہوئے۔ بابر کے مطابق ویسے بھی جب پوری ٹیم 'پلان‘ کے مطابق کھیل رہی ہو، تو کپتان پر دباؤ نہیں رہتا۔
انہوں نے کہا، ''ہم نے جنوبی افریقہ کو انہی کے کھیل پر یعنی فاسٹ بولرز کے ذریعے شکست دی۔ شاہین اور حسن علی کو امارات میں بولنگ کرنے اور ریورس سوئنگ کا تجربہ تھا، جو یہاں بہت کام آیا۔ ٹیم کی سلپ فیلڈنگ بہتر ہوئی ہے۔ ہم اپنی خامیوں پر آہستہ آہستہ قابو پا رہے ہیں۔‘‘
کپتان بابر اعظم کے مطابق نیوزی لینڈ کا دورہ بہت مشکل تھا مگر اس کامیابی سے ٹیم کا کھویا ہوا اعتماد بحال ہوا ہے۔ بابر کے مطابق ٹیم کی عالمی رینکنگ اب پانچ ہو گئی ہے اور ان کی کوشش ہو گی کہ آنے والے دنوں میں اسے مزید بہتر بنایا جائے۔ پاکستانی کپتان نے جنوبی افریقی ٹیم کی 14 سال بعد پاکستان آمد پر کہا کہ وہ مہمان کھلاڑیوں کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے یہاں آ کر اچھا مقابلہ کیا۔
بلے بازوں کے چھکے چھڑا دینے والے گیند باز
کرکٹ کی دنیا میں سن 1990 کے دہائی سے لے کر اب تک سینکڑوں گیند بازوں نے بین الاقوامی کرکٹ کھیلی۔ تاہم ان میں چند ہی ایسے باؤلر تھے جو حریف بلے بازوں کے اعصاب پر سوار ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Mason
وسیم اکرم (1984 تا 2003)
چھوٹے رن اپ کے ساتھ بائیں بازو سے تیز رفتار سوئنگ باؤلنگ کرنے والے وسیم اکرم کو خطرناک ترین باؤلرز میں سرفہرست کہنا غلط نہ ہو گا۔ دو دہائیوں پر مبنی اپنے کیریئر میں انہوں نے انتہائی ماہر بلے بازوں کے ناک میں بھی دم کیے رکھا۔ وسیم ایک روزہ میچوں میں پانچ سو وکٹیں لینے والے واحد تیز گیند باز ہیں۔ انہوں نے ایک روزہ میچوں میں بھی 414 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tallis
وقار یونس (1989 تا 2003)
وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی بھی خطرناک ترین باؤلرز میں شمار کی جاتی تھی۔ وقار یونس وکٹوں کی دوڑ میں وسیم اکرم سے پیچھے رہے۔ ان کے تیز رفتار اِن کٹرز خاص طور پر دائیں بازوں سے بیٹنگ کرنے والے بلے بازوں کی وکٹیں اڑا دیا کرتے تھے۔ وقار یونس نے بین الاقوامی ٹیسٹ میچوں میں 373 اور ایک روز میچوں میں 416 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: AP
کرٹلی ایمبروز (1988 تا 2000)
سن نوے کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کے کرٹلی ایمبروز اور کرٹنی واش کی جوڑی مخالف ٹیم کے بلے بازوں کو ناکوں چنے چبوانے میں شہرت رکھتی تھی۔ ایمبروز نے واش کے مقابلے میں وکٹیں تو کم حاصل کیں لیکن ان کا بلے بازوں پر دبدبہ کہیں زیادہ رہتا تھا۔ چھ فٹ سات انچ قد والے دراز قامت باؤلر کا شمار اپنے وقت کے خطرناک ترین گیند بازوں میں ہوتا تھا۔
تصویر: Imago Images/Mary Evans
شین وارن (1992 تا 2007)
آسٹریلوی لیگ اسپنر شین وارن بلے بازوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوتے تھے۔ شین وارن کو نہ صرف ہاتھ میں پکڑی گیند کو سپن کرنے میں مہارت حاصل تھی بلکہ وہ اپنے سامنے کھڑے بلے باز کے اعصاب پر سوار ہو جایا کرتے تھے۔ بلے باز کے دماغ کو پڑھ لینے کی صلاحیت انہیں مزید خطرناک بنا دیتی تھی۔ انہوں نے ٹیسٹ میچوں میں 708 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: dapd
متھیا مرلی دھرن (1992 تا 2011)
سری لنکن اسپنر ٹیسٹ اور ون ڈے میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے صرف زیادہ وکٹیں ہی نہیں حاصل کیں، بلکہ بلے بازوں پر ان کا رعب بھی بہت تھا۔ دنیا کے ماہر ترین بلے باز بھی ان کی انوکھی آف اسپن باؤلنگ کا مقابلہ کرتے وقت چوکس ہو جاتے تھے۔ مرلی دھرن نے اپنے کیریئر کے دوران ٹیسٹ میچوں میں 800 اور ون ڈے میں 534 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: AP
گلین میک گَرا (1993 تا 2007)
عالمی سطح پر تیز گیند بازی میں لائن اور لینتھ کے اعتبار سے میک گرا کا شاید ہی کوئی دوسرا باؤلر مقابلہ کر پائے۔ بلے بازوں کو باندھ کر رکھنے والے آسٹریلوی گیند باز نے ٹیسٹ میچوں میں 563 اور ون ڈے میچوں میں 381 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Getty Images/C. Mason
انیل کمبلے (1990 تا 2008)
بھارتی لیگ اسپنر انیل کمبلے گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران ایسے واحد باؤلر ہیں جنہوں نے ٹیسٹ میچ کی ایک اننگز میں 10 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran
ثقلین مشتاق (1995 تا 2004)
عالمی کرکٹ میں ون ڈے میچ کے آخری اوورز میں اسپن باؤلنگ کرانے اور ’دوسرا‘ متعارف کرانے والے پاکستان آف سپنر ثقلین مشتاق ہی ہیں۔ ثقلین 200 ون ڈے وکٹیں حاصل کرنے والے کم عمر ترین گیند باز بھی ہیں۔
تصویر: Imago Images/Mary Evans
شان پولک (1995 تا 2008)
جنوی افریقہ کے شان پولک نے کئی ٹاپ آرڈر بلے بازوں کو دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کیے رکھا۔ ان کی رفتار بہت تیز نہیں تھی لیکن عمدہ لائن اور لینتھ اور اس میں بھی ایک خاص تسلسل، ان کی کامیابی کا راز رہا۔ پولک نے ٹیسٹ میچوں میں 421 اور ون ڈے میں 393 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Imago Images/Colorsport
شعیب اختر (1998 تا 2011)
پاکستانی گیند باز شعیب اختر کی انتہائی تیز رفتار باؤلنگ نے انہیں ایک انتہائی خطرناک باؤلر بنایا۔ 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والے باؤنسرز اور یارکرز ان کے سامنے کھڑے بلے بازوں پر ہیبت طاری کر دیتے تھے۔ شعیب اختر کا سامنا کرتے وقت ساروو گنگولی، برائن لارا اور گیری کرسٹن جیسے بلے باز بھی پریشان دکھائی دیتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kodikara
لاسیت ملنگا (2004 سے اب تک)
سری لنکا کے تیز گیند باز لاسیت ملنگا نے اپنے کیریئر کے شروع ہی میں منفرد باؤلنگ ایکشن اور تیز رفتار یارکرز کے ساتھ بلے بازوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ ملنگا اب بھی کرکٹ کھیل رہے ہیں لیکن ان کی رفتار کچھ کم پڑ چکی ہے۔ انہوں نے اپنی زیادہ تر وکٹیں سن 2007 اور سن 2014 کے درمیان حاصل کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/empics/PA-Wire/S. Cooper
جسپرت بمرا (2016 سے اب تک)
بھارتی گیند باز جسپرت بمرا گزشتہ چند برسوں کے دوران ایک خطرناک باؤلر بن کر ابھرے ہیں۔ گیند کی رفتار میں غیر معمولی انداز میں تغیر اور انتہائی درست یارکرز کے باعث بمرا خاص طور ڈیتھ اوورز میں انتہائی خطرناک باؤلر ہیں۔ بمرا 60 ون ڈے میچوں میں سو وکٹیں اور درجن بھر ٹیسٹ میچوں میں بھی 60 سے زائد وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Dennis
12 تصاویر1 | 12
اوپنرز کے مسائل
سابق کپتان سلمان بٹ کہتے ہیں کہ یہ کامیابی پاکستان کرکٹ کے لیے بے حد اہم ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کپتان بابر اعظم کی یہ پہلی ٹیسٹ سیریز تھی اور ٹیم انتظامیہ کو بھی اس جیت کی اشد ضرورت تھی۔ اس سے اعتماد بحال ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے ٹاپ آرڈر اور بابر اعظم کے رنز نہ بنانے کے باوجود کلین سویپ کیا۔ محمد رضوان اور فواد عالم کے علاوہ زیادہ تر رنز ٹیل اینڈرز نے اسکور کیے۔ نعمان علی، فواد عالم اور محمد رضوان نے ثابت کیا کہ فرسٹ کلاس کرکٹ کے تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں۔
سلمان بٹ نے کہا کہ یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ پاکستانی سرزمین پر کامیابی فاسٹ بولرز ہی دلاتے ہیں۔ سلمان بٹ کے مطابق، ''پاکستانی ٹیم کے اوپننگ کے مسائل بہت واضح ہیں اور اوپنرز کی تکنیک پر کام کرنے ضرورت ہے۔‘‘
بین الاقوامی کرکٹ کے متنازع ترین واقعات
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا حالیہ بال ٹیمپرنگ اسکینڈل ہو یا ’باڈی لائن‘ اور ’انڈر آرم باؤلنگ‘ یا پھر میچ فکسنگ، بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ کئی تنازعات سے بھری پڑی ہے۔ دیکھیے عالمی کرکٹ کے چند متنازع واقعات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: REUTERS
2018: آسٹریلوی ٹیم اور ’بال ٹیمپرنگ اسکینڈل‘
جنوبی افریقہ کے خلاف ’بال ٹیمپرنگ‘ اسکینڈل کے نتیجے میں آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے کپتان اسٹیون اسمتھ اور نائب کپتان ڈیوڈ وارنر پرایک سال کی پابندی عائد کردی ہے۔ کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں آسٹریلوی کھلاڑی کیمرون بن کروفٹ کو کرکٹ گراؤنڈ میں نصب کیمروں نے گیند پر ٹیپ رگڑتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ بعد ازاں اسٹیون اسمتھ اور بن کروفٹ نے ’بال ٹیمپرنگ‘ کی کوشش کا اعتراف کرتے ہوئے شائقین کرکٹ سے معافی طلب کی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Krog
2010: اسپاٹ فکسنگ، پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کی بدترین ’نو بال‘
سن 2010 میں لندن کے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ پر سلمان بٹ کی کپتانی میں پاکستانی فاسٹ باؤلر محمد عامر اور محمد آصف نے جان بوجھ کر ’نوبال‘ کروائے تھے۔ بعد میں تینوں کھلاڑیوں نے اس جرم کا اعتراف کیا کہ سٹے بازوں کے کہنے پر یہ کام کیا گیا تھا۔ سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف برطانیہ کی جیل میں سزا کاٹنے کے ساتھ پانچ برس پابندی ختم کرنے کے بعد اب دوبارہ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔
تصویر: AP
2006: ’بال ٹیمپرنگ کا الزام‘ انضمام الحق کا میچ جاری رکھنے سے انکار
سن 2006 میں پاکستان کے دورہ برطانیہ کے دوران اوول ٹیسٹ میچ میں امپائرز کی جانب سے پاکستانی ٹیم پر ’بال ٹیمپرنگ‘ کا الزام لگانے کے بعد مخالف ٹیم کو پانچ اعزازی رنز دینے کا اعلان کردیا گیا۔ تاہم پاکستانی کپتان انضمام الحق نے بطور احتجاج ٹیم میدان میں واپس لانے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہارپر نے انگلینڈ کی ٹیم کو فاتح قرار دے دیا۔
تصویر: Getty Images
2000: جنوبی افریقہ کے کپتان ہنسی کرونیے سٹے بازی میں ملوث
سن 2000 میں بھارت کے خلاف کھیلے گئے میچ میں سٹے بازی کے سبب جنوبی افریقہ کے سابق کپتان ہنسی کرونیے پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔ دو برس بعد بتیس سالہ ہنسی کرونیے ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ ہنسی کرونیے نے آغاز میں سٹے بازی کا الزام رد کردیا تھا۔ تاہم تفتیش کے دوران ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کپتان کی جانب سے میچ ہارنے کے عوض بھاری رقم کی پشکش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Zieminski
2000: میچ فکسنگ: سلیم ملک پر تاحیات پابندی
سن 2000 ہی میں پاکستان کے سابق کپتان سلیم ملک پر بھی میچ فکسنگ کے الزام کے نتیجے میں کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی عائد کی گئی۔ جسٹس قیوم کی تفتیشی رپورٹ کے مطابق سلیم ملک نوے کی دہائی میں میچ فکسنگ میں ملوث پائے گئے تھے۔ پاکستانی وکٹ کیپر راشد لطیف نے سن 1995 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ایک میچ کے دوران سلیم ملک کے ’میچ فکسنگ‘ میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
1981: چیپل برادران اور ’انڈر آرم‘ گیندبازی
آسٹریلوی گیند باز ٹریور چیپل کی ’انڈر آرم باؤلنگ‘ کو عالمی کرکٹ کی تاریخ میں ’سب سے بڑا کھیل کی روح کے خلاف اقدام‘ کہا جاتا ہے۔ سن 1981 میں میلبرن کرکٹ گراؤنڈ پر نیوزی لینڈ کے خلاف آخری گیند ’انڈر آرم‘ دیکھ کر تماشائی بھی دنگ رہ گئے۔ آسٹریلوی ٹیم نے اس میچ میں کامیابی تو حاصل کرلی لیکن ’فیئر پلے‘ کا مرتبہ برقرار نہ رکھ پائی۔
تصویر: Getty Images/A. Murrell
1932: جب ’باڈی لائن باؤلنگ‘ ’سفارتی تنازعے‘ کا سبب بنی
سن 1932 میں برطانوی کرکٹ ٹیم کا دورہ آسٹریلیا برطانوی کپتان ڈگلس جارڈین کی ’باڈی لائن باؤلنگ‘ منصوبے کی وجہ سے مشہور ہے۔ برطانوی گیند باز مسلسل آسٹریلوی بلے بازوں کے جسم کی سمت میں ’شارٹ پچ‘ گیند پھینک رہے تھے۔ برطانوی فاسٹ باؤلر ہیرالڈ لارووڈ کے مطابق یہ منصوبہ سر ڈان بریڈمین کی عمدہ بلے بازی سے بچنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ تاہم یہ پلان دونوں ممالک کے درمیان ایک سفارتی تنازع کا سبب بن گیا۔