1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان توہين مذہب کا قانون بدلے، امريکا کا مطالبہ

31 جولائی 2020

امريکی محکمہ خارجہ کے مطابق پاکستانی شہر پشاور کی ايک عدالت ميں قتل کيا جانے والا طاہر نسيم امريکی شہری تھا۔ نسيم پر توہين مذہب کا الزام تھا اور اسے اسی ہفتے کمرہ عدالت ميں قتل کر ديا گيا تھا۔

Pakistan Peshawar Polizisten
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sajjad

امريکی محکمہ خارجہ نے جمعرات کی رات جاری کردہ اپنے ايک بيان ميں دعوی کيا ہے کہ پشاور ميں کمرہ عدالت ميں قتل کيا جانے والا طاہر نسيم در اصل امريکی شہری تھا۔ خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کی رپورٹ کے مطابق محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ نسيم کو اکسا کر الينوائے سے پاکستان بلايا گيا اور پھر اسے توہين مذہب کے مقدمے ميں پھنسا ديا گيا۔ بيان ميں البتہ يہ واضح نہيں کيا گيا کہ نسيم در حقيقت کيوں اور کيسے پاکستان پہنچا۔ مقتول کے امريکی شہری ہونے کے حوالے سے امريکی دعوے پر فی الحال پاکستانی حکام کا کوئی رد عمل سامنے نہيں آيا۔

رواں ہفتے بدھ کو پشاور ميں ایڈیشنل سیشن جج شوکت علی کی عدالت میں پیشی کے دوران پر طاہر نسيم کو قتل کر ديا گيا تھا۔ ابتداء ميں پاکستانی پولیس نے بتايا تھا کہ مقتول پشاور کے نواحی علاقے اچینی کا رہائشی تھا۔ اس کے خلاف سال دو سال پہلے تھانہ سربند میں توہین رسالت کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا، جس کے بعد اسے دفعہ 295 اے بی اور سی سمیت دیگر دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ واقعے کے بعد پولیس نے احاطہ عدالت میں پہنچ کر ملزم خالد خان کو حراست میں لے لیا۔

پاکستان ميں توہين مذہب کا قانون مجرم کے ليے سزائے موت تجويز کرتا ہے۔ ليکن قدامت پسند پاکستانی معاشرے ميں اگر کسی پر توہين مذہب کا الزام لگ جائے، تو جرم يا الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی ملزمان کو نشانہ بنايا جاتا ہے۔

امريکی محکمہ خارجہ نے تيس جولائی کو جاری کردہ اپنے بيان ميں کہا ہے، ''ہم امريکی شہری طاہر نسيم کی پاکستانی عدالت ميں ہلاکت پر حيرت زدہ بھی ہيں، افسردہ بھی اور پاکستانی حکام سے نالاں بھی۔‘‘ محکمے کے ترجمان کيل براؤن نے پاکستانی عدليہ اور بالخصوص توہين مذہب سے متعلق قوانين ميں ترميم پر زور ديا اور کہا کہ يہ قانون ايسے پر تشدد واقعات کا باعث بنتا ہے۔

تصویر: Reuters/A. Soomro

امريکی محکمہ دفاع کے علاوہ 'يو ايس کميشن آن انٹرنيشنل فريڈم‘ نے بھی اس قتل کی شديد الفاظ ميں مذمت کی۔ اس ادارے سے منسلک کمشنر جونی مور نے کہا، ''پاکستان ميں توہين مذہب کے قوانين کا تو دفاع ممکن نہيں مگر يہ بات قابل مذمت ہے کہ ايک امريکی شہری کو صرف اس کے مذہبی عقائد کی بنياد پر کمرہ عدالت ميں قتل کر ديا گيا اور حکومت پاکستان اس واردات کو روکنے ميں ناکام رہی۔‘‘

يہ کميشن پاکستان ميں اقليتوں کے خلاف مظالم کے واقعات کے تناظر ميں پہلے ہی پاکستان پر توجہ دے رہی ہے۔ مور نے مزید کہا کہ اسلام آباد حکام کو اقليتوں کا تحفظ يقينی بنانا چاہيے اور ان کا بھی جن پر توہن مذہب کا الزام لگے۔

 

ع س / ع آ )اے پی(

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں