پاکستان کو اُسی کی زبان میں جواب دینا ہو گا، آر ایس ایس چیف
10 نومبر 2025
اتوار کو بنگلورو میں "سنگھ کے سفر کے 100 سال: نئے افق" کے عنوان سے دو روزہ لیکچر سیریز سے خطاب کرتے ہوئے ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا، ''میرے خیال میں وہ (پاکستانی) کسی اور زبان کو نہیں سمجھتے۔ ہمیں پاکستان کو سمجھانا ہو گا۔ لہٰذا ہمیں اسی زبان میں بات کرنی ہو گی جو وہ سمجھتے ہیں۔‘‘
بھارتی میڈیا اور نیوز ایجنسیوں کے مطابق آر ایس ایس کے سربراہ کا کہنا تھا، ''ہمیں ان (پاکستان ) کی بار بار کی کوششوں کا جواب دینے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ ہمیں انہیں بھرپور جواب دینا ہو گا، ہر بار انہیں شکست دینی ہو گی، ہر بار انہیں ایسا نقصان پہنچانا ہو گا کہ وہ اس پر پچھتائیں۔‘‘
خیال رہے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی تنظیم ہے۔ اور اس کے ماتحت درجنوں دیگر تنظیمیں بھارت میں ہندوتوا کے فروغ کے لیے سرگرم ہیں۔
بھاگوت نے کہا کہ ایسے مسلسل ردِ عمل کے نتیجے میں بالآخر پاکستان اپنے رویے پر دوبارہ غور کرے گا۔ ''جب یہ جاری رہے گا تو ایک دن پاکستان کو سمجھ آ جائے گی۔ ہم یہی خواہش کرتے ہیں کہ وہ یہ سمجھیں اور پھر ہمارے لیے ایک بہت پرامن پڑوسی بن جائیں۔ ہم اپنی ترقی کے ساتھ انہیں بھی ترقی کی راہ دکھائیں گے۔‘‘
دوطرفہ تعلقات کے استحکام کے لیے آر ایس ایس کا لائحہ عمل
آر ایس ایس نے اگلی دہائی کے لیے دوطرفہ تعلقات میں استحکام حاصل کرنے کے لیے ایک عملی لائحہ عمل پیش کیا، جس میں تیاری، ڈیٹرینس اور تعمیری شمولیت پر زور دیا گیا۔
موہن بھاگوت نے کہا، جب تک پاکستان کو بھارت کو نقصان پہنچانے والے اقدامات سے باز رکھنے کے لیے امن کے کسی بھی طریقۂ کار میں تیاری، مضبوطی اور تعاون، تینوں کا امتزاج ضروری ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بھارت کو ایک ایماندار اور تعاون کرنے والا پڑوسی رہنا چاہیے، جو پاکستان کی ترقی میں مدد دے لیکن اپنے مفادات کا بھرپور تحفظ کرے۔
انہوں نے کہا، ''وقت کے ساتھ یہ رویہ پاکستان کو ایک پرامن پڑوسی بننے کی ترغیب دے سکتا ہے جو بھارت کی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہو، نہ کہ تنازعے کا سبب بنے۔‘‘
سرحدوں کو محفوظ بنانے پر زور
موہن بھاگوت نے بھارت کی کمزور سرحدوں کو محفوظ بنانے کی فوری ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ تاریخی، انتظامی اور سماجی مسائل کی وجہ سے غیر قانونی دراندازی، خاص طور پر روہنگیا پناہ گزینوں کی، ممکن ہو جاتی ہے۔
سرحدی سلامتی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بھاگوت نے کہا کہ بھارت کی کئی موجودہ سرحدیں "غیر فطری" ہیں، جو نوآبادیاتی دور میں من مانی طور پر کھینچی گئیں اور ایک متحد ملک کو تقسیم کر دیا گیا۔
انہوں نے ان سرحدی تقسیموں کی غیر منطقی نوعیت کی مثال دیتے ہوئے کہا، "کچھ علاقوں میں ایسا ہوتا ہے کہ باورچی خانہ بنگلہ دیش میں ہے جبکہ باتھ روم بھارت میں۔ اس طرح کی تقسیم مکمل بندش کو پیچیدہ بنا دیتی ہے۔‘‘
بھاگوت نے زور دیا کہ حکومت کو سرحدوں کی مکمل حفاظت اور سخت نگرانی کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ غیر قانونی ہجرت اور منظم نیٹ ورکس کے استحصال کو روکا جا سکے جو انتظامی خامیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ بدعنوانی اور معاشرتی شراکت بھی اس مسئلے میں کردار ادا کرتی ہے، اور کہا کہ ان خرابیوں کی اصلاح کے لیے مضبوط حکومتی کارروائی کے ساتھ عوامی بیداری میں اضافہ بھی ضروری ہے۔
موہن بھاگوت نےتاہم تسلیم کیا کہ، ''سرحدوں کو فوراً درست نہیں کیا جا سکتا، یہ ایک تدریجی عمل ہے، لیکن مستقل کوشش ناگزیر ہے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین