عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستان کی کوشش ہے کہ امیر ممالک 'نقصان اور ازالے‘ کا ایک ایسا فنڈ بنائیں، جو ماحولیاتی تباہیوں سے متاثر ہونے والے غریب ممالک کی مالی مدد کو یقینی بنائے۔
پاکستان بھارت کے ساتھ ماحولیات پر مذاکرات کا خواہاں، بھارتی میڈیا
کیا جہاز رانی کی صنعت آلودگی پھیلانے سے باز آ سکتی ہے؟
مصری شہر شرم الیشخ میں جاری عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں پاکستان کی کوشش ہے کہ امیر ممالک نقصان اور ازالے کے لیے ایک ایسا فنڈ مختص کر دیں، جس کی بدولت قدرتی آفات کے نتیجے میں غریب ممالک کو فوری ہنگامی مدد فراہم کی جا سکے۔
COP 27 میں لابی کرتے ہوئے پاکستانی حکومت سو سے زائد ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مل کر 'نقصان اور ازالے‘ کا ایک ایسا فنڈ بنوانا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستان کے حالیہ سیلاب اس عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں ایک کیس سٹڈی کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔ اسی تناظر میں اس کانفرنس میں شریک مندوبین کی کوشش ہے کہ مستقبل میں اگر کسی غریب ملک پر ایسی آفت ٹوٹے تو وہ بے یارومدگار نہ ہو۔
امیر ممالک اس لیے ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنے کو تیار ہیں کیونکہ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ماحولیاتی تباہی کے پیچھے ان غریب ممالک کا ہاتھ نہیں بلکہ یہ صورتحال صنعتی ممالک کی طرف سے خارج کی جانے والی ضرر رساں گیسوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ پاکستان اور دیگر غریب ممالک دراصل ماحول کی تباہی کا باعث بننے والی ضرر گیسوں کے اخراج کے ایک فیصد سے بھی کم کے ذمہ دار ہیں۔
اگرچہ اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوٹیرش نے کہا ہے کہ مصری شہر شرم الشیخ میں جاری اس کانفرنس کے دوران 'نقصان اور ازالے کا فنڈ‘ قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی تاہم پاکستان اور دیگر غریب ممالک کی طرف سے صرف 'بے بسی‘ کی بنیاد پر کچھ زیادہ مدد کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے ایسے فنڈ کے قیام کو 'کلائمیٹ جسٹس‘ قرار دیا ہے۔ یہ بات کچھ درست بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایسے غریب ممالک جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث متاثر ہوئے ہیں، وہ مالی مدد کا تقاضا بھی کریں۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو ایسی کوئی مدد حاصل کرنے کی خاطر اپنی سطح پر کوئی ٹھوس منصوبہ بندی بھی کرنا ہو گی۔
بغیر منصوبہ بندی صرف جذباتی بیانات سے کسی کو 'بلینک چیک‘ نہیں ملے گا۔ اس عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں اپنا کیس مضبوط بنانے کی خاطر اسلام آباد حکومت کو سیاسی سطح پر طویل المدتی پروگرامز پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ یوں پاکستان کو بدلتے موسموں سے مطابقت پیدا کرنے کی مد میں اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کی خاطر مالی مدد فنڈنگ مل سکے گی۔
COP 27 یعنی شرم الشیخ میں جاری عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں ممکنہ ڈونرز اور بین الاقوامی شراکت کار اس بارے میں زور دے رہے ہیں کہ اسلام آباد کو سیاسی عزم کا اظہار کرتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی بنانا ہو گی۔ پاکستان نے ماحولیاتی چیلنج سے نمٹنے کی خاطر کچھ اقدامات اٹھائے ہیں لیکن یہ کتنے مؤثر اور دورس ہیں، اسی بنیاد پر عالمی برداری مدد کرنے کو تیار ہو گی۔