پاکستان کو دھول چٹانے کے لیے ہفتہ، دس دن بہت ہیں، مودی
29 جنوری 2020دارالحکومت نئی دہلی میں طلبہ کو فوجی تربیت دینے والی حکومتی تنظیم نیشنل کیڈٹ کور(این سی سی) کے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم مودی کا کہنا تھا کہ پاکستان پر دو فضائی حملوں کے بعد نہ صرف جموں و کشمیر میں بلکہ پورے بھارت میں امن ہے اور کہیں بھی کسی طرح کا دہشت گردانہ حملہ نہیں ہوا ہے، ”دہشت گردی کو بڑی حد تک کچل دیا گیا ہے۔‘‘
وزیراعظم مودی کا اشارہ ستمبر 2016 میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں ’دہشت گردی کے مبینہ ٹھکانوں‘ اور گزشتہ فروری میں پاکستان کے بالاکوٹ میں مبینہ ’عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں‘ کو بھارتی فضائیہ کے ذریعے نشانہ بنانے کی طرف تھا۔ بھارت کا دعوی ہے کہ اس نے یہ دونوں کارروائیاں کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں کے خلاف خود کش حملوں کے جواب میں کی تھیں۔
بھارتی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان نے جموں و کشمیر میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ’پراکسی جنگ‘ کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے، جس میں ہزاروں افراد اور سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں لیکن بھارت کی سابقہ حکومتوں نے سرحد پار کارروائی کے لیے مسلح افواج کو اجازت نہیں دی تھی۔
نریندر مودی کا مزید کہنا تھا، ”لوگوں نے تقریریں تو بہت کیں لیکن جب کبھی ہماری مسلح افواج نے کارروائی کرنے کی اجازت طلب کی تو انہیں منع کر دیا گیا۔ تاہم آج ملک ’نوجوان سوچ‘ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، اس لیے اس نے دہشت گردوں کو سبق سکھانے کے لیے ان کے گھر میں داخل ہو کر سرجیکل اسٹرائیک اور فضائی حملے کیے۔‘‘
وزیراعظم مودی نے کہا کہ کشمیر بھارت کے سر کا تاج ہے اور اس کے دہائیوں پرانے مسائل کو حل کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی، جسے اس نے بخوبی حل کر دیا ہے، ”کیا ہم بھارت کے نوجوانوں کو دہشت گردی کی آماج گاہ کے طور کشمیر دینا چاہتے ہیں، جہاں بے گناہ مارے جا رہے ہوں، جہاں بھارت کے قومی پرچم کی توہین کی جاتی ہو اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہو؟ نہیں کبھی نہیں۔‘‘
وزیراعظم نے اس حوالے سے جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی آئین کی دفعہ 370 کو گزشتہ برس ختم کر دینے کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ”یہ ایک عارضی گنجائش تھی لیکن عشروں تک کسی حکومت کو اسے ختم کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ کچھ لوگوں کے اپنے سیاسی مفادات تھے اور یہ سب ووٹ بینک کی سیاست تھی۔‘‘
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ستمبر 2016 اور فروری 2019 کے مبینہ حملے اس لحاظ سے مختلف تھے کیوں کہ پہلی مرتبہ ملک کی سیاسی قیادت نے ان کارروائیوں کی ذمہ داری خود اپنے اوپر لی اور دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ بھارت مبینہ طور پر پاکستان کے اعانت یافتہ دہشت گردی کا موثر جواب دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ دونو ں فوجی کارروائیاں اپنی وسعت کے لحاظ سے سابقہ تمام کارروائیوں سے بڑی تھیں۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان دونوں فضائی حملوں کے بعد پاکستان کے رویے میں تبدیلی آ گئی ہے اور پڑوسی ملک یہ سمجھ چکا ہے کہ بھارت کی سیاسی قیادت اب کسی بھی دہشت گردانہ حملے کا جواب دینے سے گریز نہیں کرے گی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت کے نئے آرمی چیف جنرل منوج مکند نروانے نے گیارہ جنوری کو اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر حکومت حکم دے تو ان کی فوج پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کو اپنے کنٹرول میں لینے کے لیے تیار ہے۔ ان کے الفاظ تھے، ”جہاں تک پاکستانی کشمیر کا تعلق ہے، کئی برس قبل ہی بھارتی پارلیمان نے ایک قرارداد منظور کر کے کہا تھا کہ سابقہ جموں و کشمیر کا پورا علاقہ بھارت کا حصہ ہے۔ اگر پارلیمان کسی مرحلے پر چاہتی ہے کہ یہ علاقہ ہمارا ہو جائے، اور ہمیں اس سلسلے میں احکامات دیے جائیں تو ہم بلاشبہ اس سمت میں کارروائی کریں گے۔‘‘