پاکستان کو صحرا بننے سے بچایا جاسکتا ہے، آبی ماہرین
سلیم شیخ
29 اپریل 2018
پاکستان میں پانی کے تحفظ اور بہتر استعمال کے لیے کام کرنے والے ماہرین نے حکومت کی طرف سے کی قومی آبی پالیسی کی منظوری کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر عمل درآمد سے ملک کو پانی کی شدید قلت سے بچایا جا سکتا ہے۔
اشتہار
ان ماہرین نے تاہم خبردار کیا ہے کہ آبی مشکلات سے نمٹے بغیرپائیدار معاشی و سماجی ترقی خاص کر غربت میں کمی، روزگار میں اضافہ، صحت، تعلیم اور ماحولیاتی ترقی کے اہداف کا حصول ممکن نہیں ۔
پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تقریباً تین دہائیوں سے التوا کی شکار پہلی قومی آبی پالیسی کے مسودے کی منظوری وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 24 اپریل کو منعقدہ مشترکہ مفاداتی کونسل کے 37ویں اجلاس کے دوران دی۔ آبی پالیسی کا خاص مقصد پانی کی زراعت اور صنعت سمیت مختلف شعبوں کے لیے دستیابی، اس کے بہتر اور پائیدار استعمال کو یقینی بنانا اور اس کی اسٹوریج میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہے۔
قومی آبی پالیسی وفاقی کے علاوہ تمام صوبائی، گلگت بلتستان، فاٹا اور آزاد جموں و کشمیر کے متعلقہ سرکاری اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے اہم نمائندوں، پالیسی سازوں، تعلیم ماہرین اور محققوں کی تجاویز کی روشنی میں ترتیب دی گئی ہے۔ اس پالیسی کو عمل میں لانے کے لیے قومی آبی کونسل کے نام سے قومی سطح کے ادارہ کے ذریعے کام شروع جلد شروع کیا جارہا ہے۔
اس پالیسی مسودے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی آبی و خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جلد 6.4 ملین ایکڑ فُٹ اسٹوریج والے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کر کے ملکی سطح پرموجودہ 14ملین ایکڑ فُٹ آبی ذخیرہ کی صلاحیت میں مزید اضافہ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ آبی استعمال اور ترجیحات کے تعین، آبی وسائل کی ترقی اور پائیدار استعمال کے لیے مربوط منصوبہ بندی، طاس کی ماحولیاتی ہم آہنگی، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات، پانی کے حصے، آبپاشی اور بارش کے پانی پر منحصر زراعت، پینے کے صاف پانی اور سینیٹیشن، پن بجلی، صنعت، پانی کے تحفظ کے انتظامات، قانونی فریم ورک اور آبی شعبہ کے اداروں کی استعداد کار بڑھانے سمیت قومی آبی پالیسی کو عمل میں لانے کے لیے مختلف اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ، نئی آبی پالیسی میں ہر سال تقریباً 46 ملین ایکڑ فُٹ ضائع ہونے والے پانی میں سال 2030 تک 33 فیصد کمی لانے کے حوالے سے مختلف تجاویز دی گئی ہیں۔ماہرین نے اس پالیسی مسودے میں پانی کے زیاں میں کمی کے لیے نہروں کے ذریعے زرعی زمینوں تک پانی کے ترسیلی نظام کو مزید بہتر کرنے، جدید ڈرپ اور اسپرنکلر اریگیشن نظام کو کسانوں میں متعارف کرانے اور مختلف جدید آبپاشی ٹیکنالوجی کے استعمال کو ہر سطح پر ممکن بنانے پر بھی زور دیا ہے۔
عالمی بینک اور وفاقی ادارہ برائے منصوبہ بندی و ترقی کی رپورٹوں کے مطابق، پاکستان میں 30 دن کے استعمال کے لیے پانی کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت موجود ہے ، جو کم سے کم 120دن تک کی ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس انڈیا 200 دن اور مصر میں 1000دن تک کے استعمال کے لیے پانی اسٹور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کو دریاؤں اور بارشوں کی صورت میں سالانہ تقریباً 115ملین ایکڑ فٹ پانی مہیا ہوتا ہے۔ اس پانی کا 93 فیصد زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پانچ فیصد گھریلو اور دو فیصد صنعتی شعبے میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم اریگیشن نیٹ ورک زبوں حالی کا شکار ہونے کے باعث زرعی شعبے کو ملنے والے پانی کا 70فیصد حصہ ترسیل کے دوران ضائع ہوجاتا ہے۔
وفاقی ادارہ برائے ترقی و منصوبہ بندی پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سرتاج عزیز نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس آبی پالیسی کے تحت اب تمام صوبے اور تین انتظامی علاقے پائیدار ترقی اور بہتر آبی انتظام کاری کے قومی فریم ورک کی روشنی میں ایسے ماسٹر پلان ترتیب دے سکیں گے، جن کی مدد سے صوبائی و انتظامی سطح پر پانی کی اسٹوریج کے حوالے سے نئے منصوبے ترتیب دینے کے علاوہ پانی کے بہتر پیداواری استعمال کو فروغ دیا جاسکے گا۔ ایسے ماسٹر پلان کو عمل میں لانے کے لیے وفاقی حکومت مکمل طور پر مالی و تکنیکی مدد فراہم کرے گی۔‘‘
عالمی یومِ آب ’پانی کی قلت کا ایک بڑا بحران سر پر کھڑا ہے‘
آج دنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں663 ملین انسانوں کی پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔ ان میں زیادہ تر یعنی 552 ملین دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔
تصویر: dapd
بیماریاں اور اموات
آلودہ پانی پیٹ کی مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے اور ایسے پانی کو پینے کے نتیجے میں ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے لاکھوں بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/N. Sul d'Angola
متاثر بھی ہیں اور حفاظتی اقدامات بھی نہیں کر رہے
پاپوا نیو گنی، موزمبیق اور مڈغاسکر کا شمار پانی کی قلت سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ تینوں دنیا کے ان بیس فیصد ملکوں میں بھی شامل ہیں، جن میں تحفظ ماحول کے لیے انتہائی ناکافی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: DW/Ivan Mauro Zacarias
بھارت اور چین یہ معاملہ کیسے حل کریں گے؟
بھارت کے دیہی علاقوں میں رہنے والے 63.4 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ آبادی کے لحظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک چین کے دیہی آبادی کے43.7 فیصد لوگوں کی صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
موسمیاتی تبدیلیاں ایک وجہ
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سمندری طوفان، سیلاب اور خشک سالی میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی پینے کے صاف پانی تک رسائی مشکل بنانے کی ایک وجہ بھی ہے۔
تصویر: colourbox
پانی خصوصی سہولت نہیں، بلکہ حق ہے
اس رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2050ء تک دنیا بھر میں دیہی علاقوں میں رہنے والے چالیس فیصد سے زائد لوگ پانی کی شدید قلت کا شکار ہو نگے۔ اس رپورٹ کے مطابق پینے کا صاف پانی کوئی خصوصی سہولت نہیں بلکہ انسان کا بنیادی حق ہے۔
تصویر: 2aid.org/Falco Peters
ری سائیکلنگ ضروری ہے
دنیا بھر میں استعمال ہونے والے پانی کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر اس پانی کو دوبارہ سے قابل استعمال بنانے کے پلانٹ تعمیر کیے جائیں تو اس سے پانی کی قلت پر بھی قابو پایا جا سکے گا اور یہ ماحولیات کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا۔
تصویر: Getty Images/D. McNew
مثالی ممالک
سنگاپور اور امریکی ریاست کیلی فورنیا کی ساحلی پٹی پر آباد شہر سین ڈیاگو کے شہری دوبارہ سے قابل استعمال بنایا جانے والا پانی ہی پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ امریکا میں پانی کو سمندر میں شامل ہونے سے قبل تقریباً بیس مرتبہ ری سائیکل کیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
اردن اور اسرائیل کا زرعی شعبہ
اردن اور اسرائیل کے زرعی شعبوں میں استعمال ہونے والا بالترتیب نوے اور پچاس فیصد تک پانی ری سائیکلڈ ہوتا ہے۔
تصویر: DPA
عالمگیر بحران سر پر کھڑا ہے
پانی کے عالمی دن کی مناسبت سے تنظیم ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر WWF کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سن 2030ء تک پانی کا ایک عالمگیر بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس بحران سے خاص طور پر ترقی پذیر ممالک اور ترقی کی دہلیز پر کھڑی ریاستیں متاثر ہوں گی۔
تصویر: Getty Images/D. McNew
9 تصاویر1 | 9
سرتاج عزیز نے مزید کہا کہ اس آبی پالیسی میں پاکستان کے موجودہ اور مستقبل میں درپیش ہونے والی آبی مشکلات، خاص کر وہ مشکلات جو ماحولیاتی آلودگی، عالمی حدت کے باعث رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی اور اس کے پاکستان میں واقع گلیشیئرز کے پگھلنے کے عمل اور رفتار پر منفی اثرات، سمندری سطح میں مسلسل اضافے کے باعث زیر زمین پانی کا تیزی سے نمکین یا آلودہ ہونے کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہیں، کی نشاندہی کرکے ان کو حل کرنے کے لیے مختلف مالی و تیکنیکی قابلیت و صلاحیت کو مزید بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ ان تجاویز پر یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال سے عمل شروع کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ان تجاویز کو عملی شکل دینے کے لیے وفاقی ترقیاتی بجٹ کا سالانہ 10فیصد خرچ کیا جائے گا، جس میں سال 2030 تک اضافہ کرکے 20 فیصد تک بڑھایا جائے گا۔ صوبوں نے بھی اپنی صوبائی ترقیاتی بجٹ کاسالانہ 10فیصد پانی کے شعبے پر خرچ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ماہر آبی سفارت کاری اور تحقیق دان ذوالفقار ہالیپوٹو کا کہنا ہے کہ ملکی تاریخ میں اب تک پاکستان کے انڈیا اور افغانستان کے ساتھ ٹرانس باؤنڈری آبی وسائل سے منسلک معاملات پر ان ممالک کی حکومتوں کے نمائندوں سے پاکستان کی جانب سے فارن آفس کے سفارت کار اور سکیورٹی اداروں کے نمائندے بات چیت کرتے رہے ہیں۔ مگر اس نئی آبی پالیسی سے واضح ہوا ہے کہ آبی معاملات اور تنازعات پر پڑوسی ممالک سے بات چیت کرنا اب صرف اور صرف وفاقی اور صوبائی سول حکومتوں کا ہی ایجنڈا رہے گا۔ اور یہ موجودہ حکومت کی جانب سے انتہائی احسن اقدام ہے۔
غیر سرکاری تنظیم گلوبل واٹر پارٹنر شپ پروگرام کے پاکستان میں نمائندے ڈاکٹر پرویز امیر نے ڈوئچے ویلے کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ سال 1948ء میں سالانہ فی کس پچاس لاکھ لیٹر پانی موجود ہوتا تھا۔ جو اب کم ہوکر دس لاکھ لیٹر فی کس رہ گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان میں سال 2025ء تک سالانہ فی کس پانی کی موجودگی خطرناک حد تک کم ہوکر آٹھ لاکھ لٹر تک ہوجا ئے گی۔ تب ملک میں 80 فیصد لوگوں کو گھروں میں ٹونٹیوں کے ذریعے پانی مہیا نہیں ہوسکے گا اور زراعت کو بڑی حد تک نقصان پہنچے گا۔انہوں نے تجویز دی کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے چھوٹے اور درمیانے سطح کے ڈیم بنا کر زیادہ سے زیادہ پانی اسٹوریج میں اضافہ کرنا ہوگا۔
اُدھر اسلام آباد میں واقع پانی پر تحقیق کرنے والے وفاقی ادارے ’پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشرف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صاف پانی دستیابی اور سینیٹیشن کی صورتحال بہت زیادہ بگاڑ کا شکار ہے۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اب بھی21 کروڑ کی آبادی میں سے آٹھ کروڑ لوگ سرے سے ہی صاف پانی کی سہولیات سے محروم ہیں اور تقریباﹰ 90 فیصد علاقوں کا زیر زمین پانی پینے کے لائق نہیں اور یہ پانی انتہائی آلودہ اور مضر صحت ہوچکا ہے۔
خشک سالی اور مشکلات کا شکار صحرائے تھر
پاکستانی صوبہ سندھ کا ریگستانی علاقہ تھر ان دنوں شدید خشک سالی کا شکار ہے۔ پانی اور کھانے پینے کی اشیاء کی قلت اور پھر بیماریوں نے گزشتہ چند ماہ کے دوران سینکڑوں افراد کی جان لی ہے جن میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
آبائی علاقے سے نقل مکانی
خوراک کی کمی کے باعث ایک خاندان اپنے جانوروں سمیت تھر میں اپنا مستقل مسکن چھوڑ کر ایسے علاقے کی طرف رواں دواں ہے، جہاں کم از کم دو وقت کا کھانا اور سر چھپانے کو جگہ میسر ہو سکے۔ تھر میں خشک سالی کے باعث جانوروں کی بیماریاں بھی پھوٹ پڑی ہیں، جن کی وجہ سے جانور بھی بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
بارش میں کمی خشک سالی کا باعث
تھرپارکر کے علاقے میں گزشتہ برس بارش میں 30 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ اس ضلع کے علاقے ڈپلو، چاکرو اور اسلام کوٹ تو بارش کی بوندوں کے لیے ترستے ہی رہے۔ یہی علاقے پانی کی شدید قلت اور خشک سالی کا شکار ہیں۔ ان علاقوں سے نقل مکانی کر کے آنے والی خواتین مٹھی کے قریب ایک گاؤں میں ایک کنویں سے پانی نکال رہی ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
ناکافی طبی سہولیات
تھر کے قریبی شہر مٹھی کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں زیر علاج ان بچوں کے لیے نہ تو مناسب تعداد میں بستر موجود ہیں اور نہ ہی ادویات۔ تصویر میں نظر آنے والی مائیں ایک ہی بیڈ پر پڑے اپنے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
پانی زندگی ہے
ایک ننھی بچی کنویں سے نکالے گئے پانی سے اپنی پیاس بجھا رہی ہے۔ بارش نہ ہونے کے باعث خشک سالی کا شکار ہونے والے علاقوں میں بچوں کو پانی اور خوراک کی کمی سے ہی نہیں پالا پڑتا بلکہ بیماریاں بھی ان کی زندگی کے لیے شدید خطرات کا باعث ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
پانی کے حصول کے لیے مشقت
تھر سے تعلق رکھنے والی یہ خواتین صحرا میں ایک کنویں سے پانی نکال رہی ہیں۔ بھارت کی سرحد تک پھیلے ہوئے اس صحرا میں جو تھوڑی بہت کھیتی باڑی ہوتی ہے، اس کا انحصار بارش پر ہوتا ہے۔ بارش نہ ہونے کی صورت میں یہاں کے لوگ بالخصوص کسان خوراک کی شدید قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
امدادی خوراک پر گزارا
ضلع تھرپارکر میں قائم ایک امدادی کیمپ میں مقیم یہ خاندان حکومت اور مختلف امدادی اداروں کی طرف سے ملنے والی خوراک پر گزر بسر کر رہا ہے۔ شدید خشک سالی کے بعد پیدا ہونے والے حالات پر خبریں شائع ہونے کے بعد یہ علاقہ عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
روزمرہ استعمال کے لیے پانی
دو خواتین دور دراز علاقے میں واقع ایک کنویں سے گھریلو استعمال کے لیے پانی لے کر جا رہی ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی قلت کے باعث ان خواتین کے روزمرہ کاموں میں یہ کام بھی شامل ہوتا ہے کہ وہ میلوں کا سفر پیدل طے کر کے پانی لائیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
غربت اور بیماریاں، اموات کی ایک وجہ
مٹھی کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں اب تک 97 بچے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے اس سرکاری ہسپتال کے ذرائع کے مطابق گزشتہ برس دسمبر سے اب تک ہونے والی ان اموات کی وجہ تھر کے علاقے میں پھیلنے والی مختلف بیماریاں تھیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
8 تصاویر1 | 8
ڈاکٹر محمد اشرف کی رائے میں پاکستان کا مسئلہ پانی کی قلت نہیں۔ پانی کا غیر پائیدار استعمال اور اس کا ضائع ہونا زیادہ سنجیدہ مسئلہ ہے۔ پاکستان میں اب بھی پانی سیلابوں کی صورت میں وافر مقدار میں آتا ہے جو ضرورتِ اسعتمال سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔۔۔ مگر وہ ملک میں پانی کی اسٹوریج کی صلاحیت انہائی کم ہونے کے باعث ضائع ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد اشرف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سال 2010ء سے لے کر اب تک ملک میں سیلابوں کی صورت میں وافر مقدار میں پانی آتا رہا ہے ۔۔۔ مگر درکار اسٹوریج انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے وہ ضائع ہوتا رہا۔‘‘
ڈاکٹر محمد اشرف نے مزید کہا کہ پانی کے بہتر اور پائیدار استمعال کو فروغ دینے، زراعتی، گھریلو اور صنعتی سطح پرپانی کے غیر پائیدار استعمال کو روکنے، بارش کے پانی کو جمع کرنے کے چھوٹے بڑے تالابوں کی تیاری، جدید آبپاشی ٹیکنالوجی تک کسانوں کی آسان رسائی، صنعتی اور گھریلو ویسٹ واٹر کی ری سائیکلنگ کے حوالے سے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کو ریگستان ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر پاکستان کو پانی کی شدید کمی کا شکار ہونے سے بچانا مشکل ہے۔
پانی، فطرت کا ایک قیمتی اثاثہ
اگر کھانا پکانا ہے تو پانی چاہیے، کاشتکاری کے لیے بھی پانی درکار ہوتا ہے اور انسانی جسم کے لیے بھی ’آب‘ ہی حیات ہے۔ پانی کی حقیقی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے اقوام متحدہ آج پانی کا عالمی دن منا رہا ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
پانی کے محدود وسائل
اگرچہ زمین کا دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن اس کا صرف تین فیصد حصہ پینے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے تو دوسر جانب پینے کے پانی کی قلت میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں دو ارب لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پانی کی قلت
دو ارب لوگ صاف پانی کی عدم ترسیل کا شکار ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ان اعداد و شمار میں واضح اضافہ متوقع ہے۔ کئی جائزوں کے مطابق سن 2050 تک تین ارب لوگ قحط سالی سے متاثرہ علاقوں میں مقیم ہوں گے۔
تصویر: Getty Images/J. Sullivan
’فطرت برائے آب‘
پینے کے پانی کی قلت کے مسئلے کی نشاندہی کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے گزشتہ پچیس برسوں سے کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہر سال 22 مارچ کو ایک نئے عنوان کے ساتھ پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جو اس برس ’فطرت برائے آب‘ رکھا گیا ہے۔ جس کا مقصد اِس بات پر توجہ مرکوز کرانا ہے کہ فطرت کے پاس خشک سالی، سیلاب اور آلودگی جیسے مسائل کا حل موجود ہے۔
تصویر: picture alliance/ZUMAPRESS/Sokhin
گدلا پانی، ایک متبادل ذریعہ
پانی کا ضائع ہونا بھی اس کی قلت کی ایک اہم وجہ ہے۔ تاہم اب استعمال شدہ یا گدلے پانی کو دوبارہ صاف کرکے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ ایک مشکل اور مہنگا عمل ہے اور صرف چند ممالک اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Maina
وسائل کا ضیاع
اسرائیل میں نوے فیصد گدلے پانی کو زرعی آبپاشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم زیادہ تر ممالک ان وسائل کا فائدہ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ دنیا بھر میں، اسی فیصد استعمال شدہ پانی سے آلودگی پھیلتی ہے کیونکہ ابھی تک گدلے پانی کو دوبارہ صاف کرکے استعمال نہیں کیا جاتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Bothma
پینے کا صاف پانی میسر نہیں
گدلے پانی کو موثر طریقے سے قابلِ استعمال بنانے کا عمل قحط سالی کے مسئلے کا حل بن سکتا ہے۔ نمیبیا اور سنگاپور میں گندے پانی کو شفاف بنانے کے بعد پینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی دیگر ممالک میں اس حوالے سے ابھی تک تحفظات پائے جاتے ہیں۔ جیسے کہ اکثر لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ وہ ’ریفانئنڈ ویسٹ واٹر‘ پینے سے بیمار ہو جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
گندے پانی کا مسئلہ
عموماﹰ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ بوتلوں میں ملنے والا ’منرل واٹر‘ زیادہ صحت بخش ہوتا ہے۔ تاہم کئی تازہ جائزوں نے ثابت کیا ہے کہ منرل واٹر کی بوتلوں میں بھی آلودہ پانی شامل ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں کئی معروف کمپنیوں کی تیار کردہ منرل واٹر کی بوتلوں میں پلاسٹک کے ایسے چھوٹے زرے پائے گئے، جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔