1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کو غیر معمولی سیلابی صورتحال کا سامنا

تنویر شہزاد15 اگست 2013

پاکستان کو غیر معمولی بارشوں کی وجہ آج کل شدید سیلابی صورت حال کا سامنا ہے۔ اس وقت بھارت سے پاکستان میں آنے والے ان دریاؤں میں بھی شدید طغیانی ہے، جو عام طور پر سارا سال خشک ہی رہتے ہیں۔

تصویر: Reuters

آج جمعرات کے روز بھارتی علاقے سے پاکستان میں داخل ہونے والے دریائے چناب میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب دیکھا گیا۔ اس دریا میں قادر آباد کے مقام سے چار لاکھ کیوسک سے زائد کا سیلابی ریلا گزرا۔ چشمہ اور کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ میں بھی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ دریائے راوی، دریائے کابل اور دریائے ستلج میں بھی مختلف مقامات پر سیلابی صورت حال دکھائی دے رہی ہے۔

آفات سے نمٹنے والے سرکاری ادارے پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈائریکٹرظہیر عباس ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی تک پنجاب کے چار اضلاع میانوالی، نارووال، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے علاقوں میں سیلاب کی وجہ سے نقصانات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان علاقوں میں بیس ہزار سے زائد ایکڑ اراضی اور آٹھ ہزار سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔

پاکستان میں رواں مہینے کے دوران مزید بارشوں کا امکان ہےتصویر: Reuters

غیرجانبدار ذرائع کے مطابق نقصانات اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ سیالکوٹ، نارووال، سرگودھا اورگجرات سمیت کئی اضلاح میں لوگ محفوظ مقامات کی طرف جا رہے ہیں۔ ان علاقوں میں برساتی نالوں میں شدید طغیانی کی وجہ سے کئی رابطہ سڑکیں بہہ چکی ہیں اور کئی علاقوں کا شہروں سے رابطہ کٹ چکا ہے۔

سیالکوٹ کے ایک کاشتکار محمد ابراہیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے علاقے میں برساتی نالوں میں سیلاب آنے کی وجہ سے کافی نقصان ہوا ہے لیکن ابھی تک کوئی حکومتی نمائندہ ان کی مدد کے لیے نہیں آیا ہے۔

محکمہ موسمیات نے جمعرات اور جمعے کے روز ملک کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں مزید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔آئندہ چوبیس گھنٹوں میں جنوبی پنجاب، مشرقی بلوچستان، بالائی سندھ اور خیبر پختونخواہ کے متعدد علاقوں میں بارشوں کا امکان ہے۔

پاکستان کےکئی اخبارات میں ایسی خبریں چھپی ہیں، جن کے مطابق بھارت نے پاکستانی دریاوں میں ہزاروں کیوسک اضافی پانی چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کے سندھ طاس کمشنر کے دفتر میں قائم فلڈ سیل میں کام کرنے والے ایک اہلکار عبدالراشد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایسی خبریں غلط فہمی کا نتیجہ ہیں۔ ان کے بقول سندھ طاس معاہدے کی روح سے بھارت پاکستان کو سیلابی صورت حال کی پیشگی اطلاع دینے کا پابند ہے۔ موجودہ بارشوں کے بعد چناب،ستلج اورراوی میں چھوڑے جانے والے پانی کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی۔

عبدالراشد کے بقول بھارتی حکام ان کے ساتھ ٹیلی فون پر بھی رابطے میں ہیں اور وہاں سے اطلاعات باقاعدگی سے موصول ہو رہی ہیں۔ ان کے مطابق بھارت سے موصولہ اطلاعات کے مطابق بھارت سے پاکستان آنے والے دریاؤں کے بالائی علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ فی ا لحال کمزور پڑ گیا ہے اوراب وہاں دریاؤں میں سطح آب میں کمی واقع ہونا شروع ہو گئی ہے۔

سیلابی پانی کے متاثرین کو حکومت سے شکوے ہیںتصویر: AP

پاکستان میں محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل عارف محمود نے لاہور میں ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارت سے پاکستان میں داخل ہونے والے دریا سال کے بیشتر عرصے میں خشک رہتے ہیں۔ ان دریاوں کے بعض علاقوں میں لوگ فصلیں کاشت کر لیتے ہیں اور اپنے گھر بنا کر رہنا شروع کردیتے ہیں۔ اب انہی دریائی علاقوں میں مساجد، سکول اور سرکاری عمارتیں بھی بن چکی ہیں۔ موجودہ صورت حال کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ مون سون میں جب بارشیں زیادہ ہو جاتی ہیں تو بھارت کے آبی ذخائر بھر جاتے ہیں اور اضافی پانی پاکستانی علاقوں کی طرف آجاتا ہے۔ اس طرح نقصان ہوتا ہے۔

عارف محمود نے بتایا کہ ان دریاوں کے کناروں کی حفاظت کرنے اور یہاں سے تجاوزات دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ایک سوال کے جواب میں عارف محمود کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی آلودگی کی وجہ سے دنیا کے دیگر خطوں کی طرح پاکستان میں بھی موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ان کے بقول غیر روایتی طور پر پاکستان کے بالائی علاقوں میں بارشوں کی تعداد اور مقدار غیر معمولی طور پر بڑھتی جا رہی ہے۔

عارف محمود کے مطابق سن 2010 میں محدود علاقوں میں بارش سے سپر فلڈ آگیا تھا۔ سن 2011 میں سندھ کے خشک علاقوں میں اور 2012ء میں جنوبی پنجاب میں شدید بارشیں ہوئیں۔ اس سال اگست کے شروع میں کراچی اور جیکب آباد میں غیرمعمولی بارشیں ہوئیں جبکہ دو دن پہلے لاھور، راوالپنڈی، سیالکوٹ اور فیصل آباد میں غیرمعمولی طور پر شدید بارشیں ہوئیں۔

لاہور میں ایک دن میں 151 ملی میٹر بارش ہوئی جبکہ فیصل آباد میں 13اگست تک کوئی بارش دیکھنے میں نہیں آئی لیکن پھر ایک ہی دن میں ایک 131 ملی میٹر بارش ہو گئی۔ ان کے بقول پاکستان کے بڑے شہروں میں کم آبادی کے لیے کئی سال پہلے بنائے گئے سیورج سسٹم بارشوں کے اس نئے رجحان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے اس مرتبہ ہمیں مسائل بھی کچھ زیادہ نظر آ رہے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کو مد نظر رکھ کر ترقیاتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

پنجاب کے چیف میٹریالوجسٹ محمد ریاض نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سال معمول کے مطابق مون سون بارشیں ہونے کا امکان ہے تاہم ان کی شدت اگست کے آخر اور ستمبر کر شروع میں بڑھ سکتی ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: زبیر بشیر

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں