بھارتی زیر انتظام کشمیر میں اختتام ہفتہ پر باغیوں کی طرف سے ایک فوجی چھاؤنی پر حملے کے تناظر میں بھارت کی خاتون وزیر دفاع نے کہا ہے کہ پاکستان کو اس کی قیمت چکانا ہو گی۔ اس حملے میں نو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اشتہار
ہفتہ 10 فروری کو چار باغی جموں شہر کے مضافات میں واقع فوجی چھاؤنی کے عقبی راستے سے اندر داخل ہوتے ہوئے رہائشی علاقے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان حملہ آوروں اور فوجیوں کے درمیان 24 گھنٹے سے زائد وقت تک جھڑپ جاری رہی۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آوروں کو چھوٹے سے علاقے تک محدود رکھنے اور رہائشیوں کو بحفاظت وہاں سے نکالنے میں اتنا زیادہ وقت لگا۔ اتوار 11 فروری کو تاہم اس بات کی تصدیق کر دی گئی کہ چاروں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ ایک سویلین کے علاوہ پانچ بھارتی فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والا سویلین ایک فوجی کا والد بتایا گیا تھا۔
بھارتی وزیر دفاع نِرملا سیتھا رامن نے آج پیر 12 فروری کو اس حملے کے دوران زخمی ہونے والوں کی عیادت کی۔ اس موقع پر سیتھا رامن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہماری انٹیلیجنس رپورٹس کے مطابق ان دہشت گردوں کو سرحد پار سے ہدایات دی جا رہی تھیں۔‘‘ بھارتی وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا، ’’پاکستان دہشت کا دائرہ بڑھا رہا ہے۔ فائر بندی کی خلاف ورزیوں کی آڑ میں وہ غیر قانونی طور پر پاکستان سے بھارت میں داخل ہونے والوں کی مدد کر رہا ہے۔ پاکستان کو اپنے ان اقدامات کی قیمت چکانا ہو گی۔‘‘
سیتھا رامن نے اس موقع پر اس حملے کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد کی بھی درستی کرتے ہوئے یہ تعداد نو بتائی۔ قبل ازیں بھارتی پولیس نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 10 بتائی تھی جن میں چار حملہ آوروں کی ہلاکت بھی شامل بتائی گئی تھی۔ بھارتی خاتون وزیر دفاع کے مطابق، ’’دہشت گردوں کا خاتمہ کر دیا گیا تھا، پہلے معلومات تھیں کہ اس علاقے میں داخل ہونے والے دہشت گردوں کی تعداد چار تھی۔ بہت ممکنہ طور پر ان میں سے ایک ان کا گائیڈ تھا اور وہ چھاؤنی کی حدود میں داخل نہیں ہوا تھا۔‘‘
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔