پاکستان کو مطلوب بھارتی بریگیڈیئر محمد عثمان خبروں میں کیوں؟
28 دسمبر 2020بریگیڈیئر محمد عثمان کے بارے میں عسکری مؤرخین کہتے ہیں کہ اگر وہ زندہ رہتے توبھارت کے پہلے مسلم آرمی چیف بھی بن سکتے تھے۔ حکومت پاکستان نے بھی انہیں ملکی فوج کا سربراہ بننے کی پیش کش کی تھی لیکن انہوں نے اپنی جان مادر وطن بھارت پر ہی نچھاور کرنے کو ترجیح دی تھی۔
بھارت کے معروف تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں موجود بھارتی فوج کے بریگیڈیئر محمد عثمان کی قبرکو شر پسندوں نے چند روز قبل مسخ کر دیا۔ یہ قبر ملکی دارالحکومت دہلی کے جامعہ نگر اوکھلا نامی علاقے میں واقع ہے۔ اس واقعے کے بعد ڈی ڈبلیو اردو کے نامہ نگار نے ذاتی طور پر دیکھا کہ قبر پر لگے پتھر توڑ پھوڑ دیے گئے ہیں۔ قبر کے اطراف میں کوڑے کے ڈھیر پڑے تھے اور لگتا یہ تھا کہ بھارت کے اس سپوت کی قبر کی برسوں سے کسی نے کوئی خبر ہی نہیں لی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جامعہ کے قبرستان میں بھارت کی بہت سی اہم شخصیات کی قبریں ہیں لیکن ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان کے زندہ رشتہ داروں پر عائد ہوتی ہے نہ کہ جامعہ ملیہ پر۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامی علوم کے پروفیسر ڈاکٹر اقتدار محمد خان نے اس حوالے سے کہا، ''اصل مسئلہ یہ ہے کہ جامعہ کے آس پاس جو چیزیں ہیں، انہیں بھی جامعہ سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ جب بھارتی حکومت نے جامعہ کے وی آئی پی قبرستا ن میں بریگیڈیئر عثمان کی تدفین کی اجازت مانگی تھی، تو جامعہ نے یہ اجازت دے دی تھی لیکن اس قبر کی دیکھ بھال فوج کرتی تھی۔ فوجی اہلکار ہی اس کی صفائی اور مرمت وغیرہ کیا کرتے تھے۔ تاہم اب پچھلے دو برسوں سے ادھر تو کوئی آیا ہی نہیں۔‘‘ پروفیسر اقتدار محمد خان نے بتایا کہ بریگیڈیئر محمد عثمان کی قبر کی دیکھ بھال کے لیے حکومت یا فوج کی طرف سے جامعہ کو کوئی مالی وسائل نہیں ملتے۔
ڈاکٹر اقتدار خان نے بتایا کہ بریگیڈیئر محمد عثمان کی قبر کی ٹوٹ پھوٹ کے سلسلے میں بھارتی فوج کے متعلقہ اہلکاروں کو باضابطہ مطلع کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جامعہ کے کیمپس میں سابق بھارتی صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں سے ایک ڈاکٹر ذاکر حسین کا مزار بھی ہے اور اس کی پوری دیکھ بھال حکومت کرتی ہے کیوں کہ وہ ملکی صدر رہے تھے۔
بریگیڈیئر محمد عثمان کون تھے؟
بریگیڈیئر محمد عثمان 1948 کی پاک بھارت جنگ کے دوران مارے جانے والے بھارتی فوج کے اعلیٰ ترین افسر تھے۔ انہیں بھارت میں سیکولرزم کی زندہ مثال قرار دیا گیا تھا۔ وہ جموں و کشمیر میں جنگ کے دوران 3 جولائی 1948ء کو جھانگر کے مقام پر پاکستانی فوج کی ایک کارروائی میں مارے گئے تھے۔ انہیں بعد از موت بھارت کا دوسرا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز مہاویر چکر بھی دیا گیا تھا۔
ان کی میت جب کشمیر سے دہلی لائی گئی تھی تو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ہر قسم کے پروٹوکول کو نظر انداز کرتے ہوئے خود ان کا تابوت وصول کیا تھا۔ ان کی نماز جنازہ کے وقت بھارت کے گورنر جنرل سی راج گوپال آچاری، پہلے بھارتی صدر ڈاکٹر راجندر پرساد،جواہر لا ل نہرو، ملکی کابینہ کے متعدد وزراء اور آرمی چیف بھی ذاتی طور پر موجود تھے۔ ان کی نماز جنازہ بھارت کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے پڑھائی تھی۔
پاکستانی آرمی چیف کے ہم جماعت
15جولائی 1912کو اس وقت کے متحدہ صوبہ جات (اب اتر پردیش) میں اعظم گڑھ کے بی بی پورگاؤں میں پیدا ہونے والے محمد عثمان انگلینڈ کی سینڈ ہرسٹ رائل ملٹری اکیڈمی میں سن 1932ء میں داخلہ حاصل کرنے والے آخری بھارتی بیچ کے دس نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف محمد موسیٰ خان اور بھارتی آرمی چیف سیم مانک شا ان کے بیچ میٹ تھے۔سن 1935میں 23 برس کی عمر میں انہیں بلوچ رجمنٹ میں کمیشن ملا تھا۔
تقسیم ہند کے بعد جب بلوچ رجمنٹ پاکستانی فوج کا حصہ بن گئی، تو پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے بریگیڈیئر محمد عثمان کو پاکستانی فوج میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انہوں نے بھارتی آرمی کو ترجیح دی جس کے بعد انہیں بھارت کی ڈوگرا رجمنٹ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
بھارت کے سابق آرمی چیف اور مودی حکومت میں وفاقی وزیر جنرل وی کے سنگھ نے اپنی کتاب 'لیڈرشپ ان دی انڈین آرمی‘ میں بریگیڈیئر محمد عثمان کے بارے میں لکھا ہے، ”محمد علی جناح اور لیاقت علی دونوں نے کوشش کی تھی کہ عثمان بھارت میں رہنے کا اپنا فیصلہ تبدیل کر دیں۔ انہوں نے انہیں فوراً ترقی کا لالچ بھی دیا۔ لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے تھے۔ بہ طور مسلمان ان میں کسی قسم کا مذہبی تعصب نہیں تھا۔ اپنی غیر جانبداری، ایمانداری اور مساوی رویوں جیسی خوبیو ں سے انہوں نے اپنے ماتحت سپاہیوں کا دل جیت لیے تھے۔ انہوں نے بریگیڈ میں ایک دوسرے سے بات چیت کے دوران 'جے ہند‘ کہنے کی رویت بھی شروع کی تھی۔"
'نوشیرہ کا شیر‘
سن 1947 میں جب پاکستان نے قبائیلوں کی شکل میں مبینہ طور پر اپنے فوجیوں کوجموں و کشمیر میں داخل کیا اور انہوں نے جھانگر اور نوشیرہ نامی علاقوں پر قبضہ کر لیا، تو بریگیڈیئر محمد عثمان کی قیادت میں بھارتی فوج نے بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے یہ مقبوضہ علاقے دوبارہ حاصل کر لیے تھے۔
جب انہوں نے نوشیرہ کو دوبارہ واپس لے لیا، تو انہیں 'نوشیرہ کا شیر‘ کے نام سے پکارا جانے لگا اور وہ بھارت میں قومی ہیرو قرار پائے تھے۔
پچاس ہزار روپے انعام
پاکستان نے اس کے بعد ان کے سر پر 50 ہزار روپے کے انعام کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بریگیڈیئر محمد عثمان غالباً واحد بھارتی فوجی ہیں، جن کے سر کی اس دور میں پاکستانی فوج نے اتنی بڑی قیمت رکھی تھی۔
بریگیڈیئر محمد عثمان جھانگر پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے دوران پاکستانی فوج کی ایک توپ کے گولے کا نشانہ بنے تھے۔ اس وقت ان کی عمر 36 برس سے بھی کم تھی۔
ان کی قبر کے کتبے پر لکھا ہے، ”یہاں بھارت کے بہادر سپوت مرحوم بریگیڈیئر محمد عثمان کا جسد خاکی دفن ہے۔ دہائیاں اور نسلیں گزر جائیں گی لیکن ان کا مزار مادر وطن کے ایک سچے جانباز بیٹے کی جرأت مندی کے ثبوت کے طور پر موجود رہے گا۔ یہ آج بھی اور آنے والی نسلوں کو بھی حوصلہ دیتا رہے گا۔"
بھارت کے اسی بہادر سپوت کے مزار کو شر پسندوں نے اب توڑ پھوڑ دیا ہے اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ لوح مزار پر بھارتی فوج نے ان کی جائے پیدائش بی بی پور، اعظم گڑھ کے بجائے 'بی بی پو، علی گڑھ‘ لکھوا دی ہے۔