پاکستانی وزیر اعظم نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی چھٹی کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان سے وزارت خزانہ کا قلمدان واپس لے لیا ہے۔ اب یہ جنوبی ایشیائی ریاست نئے ملکی وزیر خزانہ کی تلاش میں ہے۔
اشتہار
اسحاق ڈار سے وزارت خزانہ کا قلمدان واپس لے لیے جانے سے متعلق اطلاعات گزشتہ کئی دنوں سے مقامی میڈیا میں گردش کر رہی تھیں۔ ڈار کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے اور نیب کی ایک عدالت میں پیش نہ ہونے کی بنا پر ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔
تاہم اسحاق ڈار خود پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہیں اور ان کے مطابق وہ علاج کی غرض سے لندن میں موجود ہیں۔ حکمران جماعت مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے اسحاق ڈار نواز شریف کے قریبی عزیز بھی ہیں اور حکمران جماعت نواز شریف اور اسحاق ڈار کے خلاف الزامات کو ملک کی طاقتور فوج اور اپوزیشن کی جانب سے ’سیاسی انتقام‘ قرار دیتی ہے۔
وزیر خزانہ کے طور پر ڈار نے ملکی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو چھٹی کی ایک درخواست بھیجی تھی۔ روئٹرز کے مطابق وزیر اعظم نے غیر معینہ مدت کے لیے ان کی چھٹی منظور کرتے ہوئے ان سے وزارت خزانہ کا قلمدان بھی واپس لے لیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کے طور پر اسحاق ڈار کو سن دو ہزار تیرہ میں ملک کو ’گردشی ادائیگیوں‘ کے بھنور سے نکالنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ وزارت خزانہ سے ان کی علیحدگی ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب پاکستان زر مبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر کے باعث سرکاری آمدنی اور ادائیگیوں میں توازن تلاش کرنے کی تگ و دو میں ہے۔
اسحاق ڈار کے بعد پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ان کے ممکنہ جانشین وزیر خزانہ کے طور پر مفتاح اسماعیل اور سرتاج عزیز کے نام سامنے آ رہے ہیں۔ سرتاج عزیز اس سے قبل بھی پاکستان کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں جب کہ مفتاح اسماعیل کچھ عرصہ قبل تک پاکستان کے ’بورڈ آف انویسٹمنٹ‘ کے چیئرمین تھے۔
علاوہ ازیں ایسی خبریں بھی ہیں کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اسحاق ڈار کی چھٹی کے دوران اور شاید آئندہ برس ہونے والے عام انتخابات تک وزارت خزانہ کا قلمدان بھی سنبھال لیں گے۔
تاہم ماہرین کی رائے میں اس بات سے قطع نظر کہ ڈار کی جگہ آئندہ یہ ذمہ داری کون نبھائے گا، ایک بات طے ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کی ڈار کی پالیسی آئندہ دنوں میں بھی جاری رکھی جائے گی۔ حکمران جماعت آئندہ عام انتخابات سے قبل روپے کی قدر میں کمی کے نتیجے میں ممکنہ طور پر بہت زیادہ افراط زر کی صورت حال کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔