پاکستان: کیا آئی ایم ایف سے قرض لینا آخری حل ہے؟
31 جولائی 2018بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز انویسٹرز اور بلوم برگ نے اپنی تازہ رپورٹوں کے مطابق بڑھتے ہوئے مالی خسارے اور زر مبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کو سہارا دینا نئی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔ مالیاتی امور کے تجزیہ کار مزمل اسلم نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں بھی اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’بلاشبہ معاشی مسائل نئی حکومت کے منتظر ہیں، 37 ارب ڈالر کی درآمدات، ترسیلات زر میں کمی، توازن ادائیگی کی بگڑی صورتحال اور زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر یقیناً نئی حکومت کے لیے کڑا امتحان ثابت ہوں گے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا،’’مالی مشکلات سے بچنے کے لیے پاکستان کو فوری طور پر 10 سے 15 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس چونکہ اس قدر وسائل موجود نہیں ہیں کہ اپنی ضرورت کا انتظام خود کر سکے لہذا مالی مسائل حل کرنے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑ سکتا ہے۔‘‘
دوسری جانب امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے آئی ایم ایف سے پاکستان کے لیے مشروط بیل آؤٹ پیکج کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان سرد اقتصادی جنگ کے پیش نظر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ملنے والا فنڈ چینی قرضے کی ادائیگی میں استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
امریکا پاکستان کے خلاف کون سے اقدامات اٹھا سکتا ہے؟
پاکستان کے معروف معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں امریکی وزیر خارجہ کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ’’عالمی مالیاتی فنڈ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ملکوں کو قرض دینا چاہتا ہے جبکہ پاکستان اس سے قبل بھی کئی بار آئی ایم ایف کا پروگرام لے چکا ہے۔ لیکن امریکا کی جانب سے ڈومور کا مطالبہ زور پکڑنے پر پاکستان نے کافی سخت رویہ اختیار کیا، جس کے جواب میں اب امریکا پاکستان سے کچھ ظاہری سختی برت رہا ہے۔‘‘ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے نیا قرض لینے کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی آپشن نہیں۔
پاکستان کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائرکی مالیت صرف نو ارب ڈالر ہے، جو بمشکل دو ماہ کی درآمدی ضروریات کے لیے کافی ہے۔ ساتھ ہی آئی ایم ایف سے لیے گئے پچھلے قرضے، درآمدات اور یورو بانڈز کی ادائیگی بھی ملکی خزانے پر بوجھ ہیں، جن کے لیے رقم کا بندوبست کرنا بہرحال نئی حکومت کی ذمہ داری ہو گی۔
پاکستان کی نگراں حکومت کو درپیش چیلنجز
دفاعی تجزیہ کار اکرام سہگل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا،’’امریکا اکثر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی معیشت اور سیاست پر حاوی ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس بار بھی امریکی وزیر خارجہ کا بیان نئی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہی ہے کیونکہ امریکا چین سے اقتصادی جنگ لڑ رہا ہے اور اس کے بدلے میں وہ پاکستان کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ وہ اسی لیے آئی ایم ایف کو دھمکا رہا ہے کہ اگر قرض دیا جائے تو اس سے چینی قرضے کی ادائیگی نہ ہونے دی جائے۔‘‘
اکرام سہگل نے مزید کہا،’’پاکستان اور چین کے درمیان تقریبا 55 ارب ڈالر کا اقتصادی راہداری منصوبہ ابتدا سے ہی امریکا کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ اب چین عالمی افق پر سپر پاور بننے جا رہا ہے، جو امریکا سے کسی طرح ہضم نہیں ہو رہا ، اسی لیے امریکا چین کو نقصان پہنچانے کے لیے پاکستان پر کڑی شرائط عائد کر رہا ہے۔‘‘
آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج، امریکا کو تحفظات
مالیاتی امور کے تجزیہ کار خرم شہزاد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’اگرچہ پاکستان کی مالی صورتحال بہتر نہیں، ٹیکس آمدن کم اور اخراجات زیادہ رہنے کی وجہ سے مالی خسارہ کافی بڑھ گیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آئی ایم ایف سے قرضہ ہی مشکل کا آخری حل ہے۔‘‘
خرم شہزاد نے مزید کہا کہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے واضح برتری حاصل کی ہے۔ ان کے بقول جب متوقع وزیر اعظم عمران خان شوکت خانم ہسپتال کے لیے چند گھنٹوں میں عوام سے کروڑوں روپے جمع کر سکتے ہیں،’’ تو اگر وہ ملک کی بہتری کے لیے سمندر پار پاکستانیوں سے درخواست کریں کہ جو بھی پیسہ پاکستان بھیجیں، بینکنگ چینل سے بھیجیں۔ تو میرا خیال ہے کہ جو سالانہ انیس بیس ارب ڈالر آرہے ہیں، اس کی جگہ چالیس ارب ڈالر پاکستان آئیں گے، جس سے صورتحال بہتر ہو گی۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بانڈز کے اجرا سے بھی رقم آسکتی ہے۔ جبکہ چین اور سعودی عرب بھی نئی حکومت کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف نے ہمیشہ ٹیکس آمدنی بڑھانے اور سادگی اختیار کرنے پر زور دیا ہے، جس کا مقصد غربت اور بیروزگاری میں کمی کے نتیجے میں عوام کا معیار زندگی بہتر بنانا ہے۔ عمران خان نے الیکشن میں کامیابی کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ روزگار کی فراہمی کی یقین دہائی کروائی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور متوقع وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہےکہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا راستہ کھلا ہے۔ ان کے مطابق ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے صرف 125 ارب روپے ٹیکس حاصل ہو سکا ہے جبکہ پاکستان کو ہر ماہ دو ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
اقتصادی تجزیہ کار ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں کہا،’’نئی حکومت کو معاشی میدان میں سخت اقدامات اٹھانا پڑیں گے۔ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر رقم کا انتظام کرنا ہوگا۔ دس سے پندرہ ارب ڈالر کا انتظام کہاں سے ہوگا؟‘‘
انہوں نے مزید کہاکہ چین اور سعودی عرب یا کوئی اور دوست ملک آئی ایم ایف کے قرضے کا متبادل نہیں ہوسکتا۔
ان کے مطابق امریکا آئی ایم ایف کے قرض کو مشروط کرنا چاہ رہا ہے، جس کا مقصد مالی معاونت کے نتیجے میں پاکستان اور چین کی دوستی میں دراڑ ڈالنا ہے۔ شاہدہ وزارت کے بقول اس سے پہلے بھی آئی ایم ایف نے جب بھی قرض دیا، روپے کی قدر میں کمی، بجلی کے ٹیرف میں اضافہ، مہنگی گیس، ٹیکسوں کی شرح میں اضافے جیسی شرائط رکھیں۔