پاکستان: کیا ٹک ٹاک ویڈیوز پر پابندی میں حکومت کا ہاتھ ہے؟
21 جولائی 2023ٹک ٹاک نے رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستانی صارفین کی طرف سے اپلوڈ کی جانے والی ایک کروڑ سترہ لاکھ ویڈیوز کو کمیونٹی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی پر اپنی سائٹ سے ہٹا دیا۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان ویڈیوز کو ہٹوانے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ ٹک ٹاک نے پاکستانی قوانین کے تحت کمیونٹی گائیڈ لائنز تیار کی ہیں اوران کی خلاف ورزی پر ویڈیوز ہٹا دی جاتی ہیں۔ تاہم ماہرین کے خیال میں پاکستانی حکومت کی معاونت کے بغیر اس طرح کی ویڈیوز کو ہٹانا بہت مشکل ہے۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ان ہٹائی گئی ویڈیوز میں ممکنہ طور پر ان کے حمایتیوں کی طرف سے اپلوڈ کی جانے والی وڈیوز بھی ہو سکتی ہیں۔
حکومتی موقف
ٹک ٹاک نے ویڈیوز کی ایک بڑی تعداد کو صارفین کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی ہٹا دیا۔ ایسی ویڈیوز جو ناظرین کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی ہٹا دی گئیں ان کی شرح 83 فیصد تھی جبکہ 92 فیصد قابل اعتراض مواد والی ویڈیوز کو اشاعت کے ایک ہی دن میں ختم کر دیا گیا۔
دانشور سے نہیں، ٹِک ٹاک کی اہمیت کا اشرافیہ سے پوچھیے
ڈی ڈبلیو کی طرف سے بھجوائے گئے سوالات کے جواب میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی طرف سےبھجوائے گئے جواب میں کہا گیا،''وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی سید امین الحق کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مثبت سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن بد قسمتی سے اس کا کچھ منفی استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔‘‘
سید امین الحق کے مطابق ٹک ٹاک پر مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان میں دو دفعہ پابندی لگائی گئی۔ ''اس کے بعد ٹک ٹاک کمپنی کے ذمہ داران سے ملاقات میں یہ بات واضح کی گئی کہ قومی سلامتی کے اداروں پہ دشنام طرازی، عدلیہ کی تحقیر، پاکستان کی معاشرتی اقدار کے خلاف مواد اور اسلامی روایات کے خلاف مواد ملکی قوانین کے مطابق غیر قانونی ہے۔ لہذا ٹک ٹاک سے یہ کہا گیا کہ وہ پاکستانی قوانین کی روشنی میں کمیونٹی گائیڈ لائنز تیار کرے۔‘‘
’فحاشی‘ کنٹرول نہ کرنے پر پاکستان میں ٹک ٹاک پر پابندی
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس ملاقات کے بعد ٹک ٹاک نے جو کمیونٹی گائیڈ لائنز تیار کیں وہ پاکستانی قوانین کے مطابق ہیں۔ '' اب ٹک ٹاک خود ہی ان کمیونٹی گائیڈ لائنز کے خلاف اپلوڈ کی جانی والی ویڈیوز کو ختم کر دیتی ہے اور اس میں پاکستانی حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔‘‘
حکومتی دعوے پرشکوک و شبہات
تاہم حکومت کے مخالفین اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وڈیوز کو ہٹانے میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف ہزارہ ڈویژن کی صدر تہمینہ فہیم کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف سب سے زیادہ متحرک ہے، اس لیے ان ہٹائی جانے والی ویڈیوز میں ممکنہ طور پر بہت ساری ویڈیوز پی ٹی ائی کے حامیوں کی بھی ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ٹک ٹاک پر پاکستان تحریک انصاف کے بہت سارے حمایتی حکومت پر بھی تنقید کرتے ہیں اور طاقتور اداروں کا بھی احتساب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے حکومت پریشان ہے اور چار مہینے میں اتنی بڑی تعداد میں ویڈیوزہٹانے سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی کے حامیوں کی طرف سے اپلوڈ کی جانے والی ویڈیوز کی ہے۔‘‘
ٹاک ٹاک کی بندش، پاکستان میں بحث
تہمینہ فہیم کے مطابق عمران خان نے حال ہی میں ٹک ٹاک جوائن کیا ہے۔ ''یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت ٹک ٹاک کمپنی کو ڈرانے کے لیے ان سے اس طرح کے اقدامات کرا رہی ہو۔‘‘
تہمینہ فہیم نے مطالبہ کیا کہ اگر حکومت اپنے دعوے میں سچی ہے تو وہ کمپنی سے سارے وڈیوز کی تفصیلات طلب کرے۔ ''اور عوام کو بتائے کہ کن وجوہات کی بنا پر انہیں ہٹایا گیا۔ وڈیوز کی تفصیلات سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس میں پی ٹی آئی کے حامیوں کی بھی وڈیوز تھیں۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا امور کے ماہر عمیر سلیم کے خیال میں اتنی بڑی تعداد میں ویڈیوز کو ہٹایا جانا حکومتی معاونت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ عمیر سلیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پاکستان میں 19 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اگر مختلف زبانوں میں کوئی طاقتور اداروں پہ تنقید کر رہا ہے یا کوئی ایسی بات کہہ رہا ہے جو حکومت کو پسند نہیں ہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ ٹک ٹاک کمپنی اس کو از خود ہی سمجھ لیں کیونکہ عموما کمپنیوں کو کسی ملک کی حساسیت کے حوالے سے اتنی زیادہ واقفیت نہیں ہوتی۔‘‘
عمیر سلیم کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ پاکستان میں کوئی ماڈریٹر حکومت کی طرف سے نامزد کیا گیا ہوگا جو ٹک ٹاک کی ویڈیوز پہ نظر رکھتا ہوگا اور قابل اعتراض ویڈیوز کی نشاندہی کرتا ہوگا۔
جب ڈی ڈبلیو نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی ترجمان ملاحت عبید سے رابطہ کیا توو بتایا گیا کہ ڈی ڈبلیو کے سوالات کو متعلقہ حکام تک بھیج دیے گئے ہیں اور''جب ان سے جواب ملے گا تو وہ بھیج دیا جائے گا‘‘۔
پاکستان میں ٹک ٹاک کے ایک سورس فہد نیازی سے بھی ڈی ڈبلیو نے ای میل پر رابطہ کیا، تو انہوں نے سوالات ٹک ٹاک کے متعلقہ افسر عماد ظفر کو بھیجے، تاہم اس رپورٹ کے فائل کرنے تک عماد ظفر کی جاب سے بھی کسی قسم کا جواب موصول نہیں ہوا۔