پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں زراعت کی پیداوار میں چالیس فیصد کمی آئی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ علاقے میں موجود دو ہزار سے زائد پن چکیوں میں سے اب صرف ڈھائی سو کام کر رہی ہیں۔
اشتہار
محمد لطیف نے یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ وہ اپنا گھر چلانے کے لیے بسوں کو دھونے کا کام کریں گے۔ لیکن تین سال قبل انہیں اپنی پن چکی بند کرنا پڑی، ایک ایسا کاروبار جو ان کا خاندان ساٹھ سالوں سے چلا رہا تھا۔ کئی سالوں سے خشک سالی اور بے ربط بارشوں کے باعث پاکستان کے زیر انتطام کشمیر کے گاؤں چکوٹھی میں زراعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ زراعی پیداوار میں کمی کے باعث اب پن چکیوں کے لیے اتنی گندم اور دیگر اناج نہیں جسے پیسنے کی ضرورت ہو۔ پچاس سالہ لطیف کا کہنا تھا، ''جب لوگوں نے اناج پسوانے کے لیے میرے پاس آنا بند کر دیا تو مجھے اپنی چکی بند کرنا پڑی۔ میرے پاس اور کوئی حل نہیں تھا۔''
زرعی ماہرین کے مطابق لطیف کا شمار ان سینکڑوں پن چکی مالکان میں ہوتا ہے جنہیں اپنا کاروبار چھوڑنا پڑا کیوں کہ بے ربط بارشوں کے باعث زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی۔ پاکستان کے قومی دیہی پروگرام کے بزنس ڈولپمنٹ افسر زاہد احمد کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں دو ہزار سے زائد پن چکیاں ہیں لیکن ان میں سے صرف ڈھائی سو ہی کام کر رہی ہیں ۔
جہلم ویلی کے زراعت ڈیپارٹمنٹ کے نائب ڈائریکٹر مرتضیٰ گیلانی کا کہنا ہے،'' گزشتہ سال فصل کی کٹائی کے وقت بہت زیادہ بارشوں کے باعث پاکستان کے زیر انتطام کشمیر میں پیداوار کو بہت نقصان ہوا۔ فصل متاثر ہونے سے کسان مایوس ہوتے ہیں اور اپنا کام چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔''
گندم کی کاشت کی ترجیح
موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار ملکوں کی فہرست میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ ان تبدیلیوں کا براہ رست اثر پاکستان کی سینکڑوں پن چکیوں پر ہوا ہے۔ کئی دہائیوں قبل ان چکیوں کو کشمیر کے ندی نالوں کے قریب گندم اور مکئی کو پیسنے کے لیے بنایا گیا تھا۔لیکن صرف بارش ہی نہیں، تبدیل ہوتی خوراک بھی پن چکیوں کے بند ہونے کی وجہ بنی ہے۔ اب بہت سے کشمیری مکئی کی جگہ گندم کو ترجیح دیتے ہیں۔جیسے کسانوں نے مکئی کی جگہ گندم کی کاشت بڑھائی اسی طرح خشک سالی اور بے ربط بارشوں کے باعث ان کی گندم کی پیداوار بھی متاثر ہوئی۔
اشتہار
پانی کی کمی
زرعی ماہرین کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اسی فیصد کھیت پانی کے لیے بارشوں پر اکتفا کرتے ہیں، زراعت کے ماہر ظہیر گردیزی کا کہنا ہے کہ ستر سال پہلے پاکستان میں فی کس بارہ ہزار کیوبک میٹرز پانی دستیاب تھا آج فی کس صرف نو سو کیوبک میٹرز پانی دستیاب ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کا کوئی بھی ملک جہاں پانی فی کس سترہ سو کیوبک میٹرز سے کم ہے وہ ملک پانی کی کمی کا شکار ہے اور اگر فی کس پانی کی دستیابی ایک ہزار کیوبک میٹرز ہے تو وہ ملک شدید پانی کی قلت کا سامنا کر رہا ہے۔
پن چکیوں کا متبادل استعمال
یونیورسٹی آف آزاد جموں اینڈ کشمیر کے محمد نعیم احمد کا کہنا ہے کہ پن چکیاں ماحول دوست ہیں۔ اس لیے حکومت کو ان کے متبادل استعمال کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان پن چکیوں کو بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن محمد لطیف کہتے ہیں کہ پانی کی دستیابی بڑھ بھی جاتی ہے یا پن چکیوں کا کوئی اور استعمال کیا بھی جاتا ہے تب بھی وہ حکومت کی امداد کے بغیر یہ کام دوبارہ شروع نہیں کر سکتے۔ محمد لطیف کے مطابق لکڑی، پتھروں اور مٹی سے بنائی گئی ان پن چکیوں کو زیر استعمال رکھنے کے لیے دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔
ب ج، ع ق (تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن)
کاغان اور ناران: یہ وادیاں یہ پربتوں کی شہزادیاں
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر میں جہاں باقی تمام کاروبار متاثر ہوئے وہیں پاکستانی سیاحت کو بھی بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ اس پکچر گیلری میں سیر کیجیے، پاکستان کے دو مشہور سیاحتی مقامات ناران اور کاغان کی۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
دھرم سرجھیل اور اس کا دلفریب قدرتی حسن
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی سرحدوں کے سنگم پر واقع دھرم سرجھیل تقریباﹰ ساڑے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ گلیشیئرز کے پانیوں سے بنی ہوئی جھیل ہے اور اپنی خوبصورتی کے باعث سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ یہاں سیدگئی جھیل، آنسو جھیل، جھیل سیف الملوک، کنڈول جھیل، پائے جھیل، سری جھیل، دریائے پنجکورہ اور کئی دیگر مقامات ایسے ہیں، جن کا حسن دیکھنے والے کو سحر میں لے لیتا ہے۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
صوبہ خیبر پختونخوا کا قدرتی حسن اور تاریخی ورثہ
خیبر پختونخوا میں ہزارہا سال پرانی تہذیبی باقیات اور آثار قدیمہ کی کوئی کمی نہیں۔ قدرت نے پاکستان کے اس حصے کو بہت سی وادیوں اور پہاڑوں سے بھی نوازا ہے۔ ناران سے دھرم سر جھیل جانے کا یہ راستہ سیاحوں کے لیے گہری دلچسپی کا باعث اس لیے بھی ہے کہ عموماﹰ وہ دیگر جھیلوں کی طرف جاتے یا آتے ہوئے یہاں کچھ دیر کے لیے ٹھہر جاتے ہیں۔ اکثر سیاح یہاں تصاویر اور ویڈیوز بناتے یا پھر پکنک مناتے بھی نظر آتے ہیں۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
کورونا کے باعث ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی آمد بہت کم
اس بار کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے جولائی کے وسط تک غیر ملکی سیاحوں کی بکنگ نہ ہونے کے برابر رہی اور مقامی سیاح بھی بہت ہی کم تعداد میں ان وادیوں کا رخ کر رہے ہیں۔ لیکن جو سیاح اب ان وادیوں کا رخ کر رہے ہیں، ان کی بڑی خوشی سے خاطر مدارت کی جاتی ہے کیونکہ ان خوبصورت وادیوں میں لوگوں کو زیادہ تر آمدنی انہی سیاحوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
لولو سر جھیل تقریباﹰ گیارہ ہزار دو سو فٹ کی انچائی پر واقع
لولو سر جھیل وادی کاغان کی سب سے بڑی جھیل ہے جس کی لمبائی تقریباﹰ تین کلومیٹر ہے اور یہ تقریبا گیارہ ہزار دو سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس جھیل کا شمار دریائے کنہار کے ہیڈ واٹرز میں ہوتا ہے اور یہ وادی ناران سے دو سو ستاسی کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ناران کے زیادہ تر مکین پشتو، اردو اور ہندکو زبانیں بولتے ہیں۔ گھنے جنگلات اور سرسبز چراگاہوں سے بھرا ہوا یہ علاقہ انتہائی خوبصورت ہے۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
کاغان کے قلب میں دریائے کنہار
وادی کاغان کو اس کا نام کاغان نامی قصبے کی وجہ سے دیا گیا۔ بابو سر ٹاپ کے قریب سے شروع ہوتا ہوا دریائے کنہار پوری وادی کاغان کو سیراب کرتا ہوا مظفر آباد کے قریب دریائے جہلم میں مل جاتا ہے۔ اس کی لمبائی ایک سو چھیاسٹھ کلو میٹر ہے۔ دلنشیں پہاڑوں سے گزرتا ہوا یہ دریا اپنے انتہائی ٹھنڈے اور صاف پانی کی وجہ سے مشہور ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حسین جنگلات اور پہاڑ انتہائی دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
دلفریب پیالہ جھیل کا چمکتا ہو سبز رنگ کا پانی
منفرد ساخت والی پیالہ جھیل وادی ناران سے چالیس کلو میٹر دور ایک پہاڑ پر واقع ہے۔ اس کا چمکتا ہو سبز رنگ کا پانی سیاحوں کا دل اپنی جانب کھینچتا ہے۔ یہ جھیل اپنی خوبصورتی کے اعتبار سے بہت منفرد ہے۔ ناران اور کاغان کی وادیوں کو ان کے حسین نظاروں، جھیلوں، چشموں، آبشاروں اور گلیشیئرز کے باعث سیاحتی حوالے سے بہت پسند کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
کیوائی، پارس، شینو، جرید اور مہانڈی کے خوبصورت قصبات
ناران کاغان کے علاقے میں سترہ ہزار فٹ سے زیادہ بلندی والی کئی چوٹیاں واقع ہیں۔ ان حسین وادیوں کے راستے میں کیوائی، پارس، شینو، جرید اور مہانڈی جیسے بہت سے خوبصورت قصبات آتے ہیں، جن کا حسن دیکھنے والے کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج بھی اس خطے میں کئی انتہائی خوبصورت سیاحتی مقامات ایسے ہیں، جنہیں بین الاقوامی معیار کے مطابق ترقی نہیں دی جا سکی۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
کورونا وائرس کے باعث سیاح ان وادیوں میں نہ ہونے کے برابر
آج کل ان وادیوں میں سیاحوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی لیے وہاں رونقیں اور چہل پہل بھی کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ جل کھنڈ میں دریائے کنہار کے قریب واقع یہ ریسٹورنٹ بالکل سنسان تھا۔ ریسٹورنٹ کے مالک کے مطابق اس سیزن میں یہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی لیکن اب تو سیاحوں نے پہلے سے کرائی گئی بکنگز بھی منسوخ کر دی ہیں اور اس وبا نے تو ملکی سیاحت تو دہشت گردی سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
عدم توجہ کا نتیجہ سہولیات کا فقدان
پاکستان کے پاس قدرتی حسن کا اتنا بڑا خزانہ ہے کہ سیاحت کو جدید خطوط پر ترقی دے کر ملک کے لیے بے تحاشا زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر سیاحتی شعبہ ملکی معیشت میں اپنی وہ ممکنہ لیکن بہت اہم جگہ نہیں بنا سکا، جس کا وہ اہل ہے۔ ایک طرف سیاحتی شعبے کے سرکاری اداروں کی غفلت ہے تو دوسری طرف سیاحوں کے لیے آمد و رفت کی جدید، تیز اور محفوظ سہولیات کی دستیابی بھی یقینی نہیں بنائی جا سکی۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
بیسل نامی گاؤں میں دودھی پتسر اور دیگر مشہور ٹریلز
ایک دریا کے کنارے واقع بیسل نامی چھوٹا سا گاؤں وہ جگہ ہے، جہاں سے دودھی پتسر اور دیگر مشہور ٹریلز کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان اور دنیا بھر سے سیاح ان ٹریلز پر چلنے کے لیے ہر سال بیسل کا رخ کرتے ہیں۔ اس گاؤں کو ہونے والی آمدنی میں سیاحوں کی آمد و رفت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ وادی ناران سے شمال کی جانب سفر کرتے ہوئے آخری پولیس چیک پوسٹ بھی بیسل ہی میں واقع ہے۔
تصویر: DW/ I. Jabeen
عوامی اور نجی شعبوں میں اشتراک عمل کی ضرورت
پاکستانی پہاڑ سر کرنے والے آنے والے کوہ پیماؤں اور سیاحت کے لیے اس ملک کا رخ کرنے والے غیر ملکیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق اٹلی، اسپین، پولینڈ، جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا سے ہوتا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق سیاحتی شعبے کے لیے بہتر مالیاتی نتائج کی خاطر عوامی اور نجی شعبوں کے مابین مشترکہ سرمایہ کاری اور اشتراک عمل بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔