پاکستان کی بيٹی ہوں اور پاکستانی ہونے پر فخر ہے، ملالہ
14 اکتوبر 201316 سالہ ملالہ یوسف زئی گزشتہ برس 9 اکتوبر کو سوات کے شہر مینگورہ میں طالبان کے ایک حملے میں شدید زخمی ہو گئيں تھیں۔ انہوں نے اتوار کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق کے لیے آواز اُٹھاتی رہیں گی۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ ایک دن وہ اپنے ملک میں سیاست کے میدان میں اتریں گی۔
واضح رہے کہ طالبان نے ملالہ یوسف زئی پر حملے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ وہ طالبان پر تنقید کرتی ہیں۔ اس حملے میں شدید زخمی ہونے کے بعد انہیں ابتدا میں پاکستان میں طبی امداد دی گئی تھی، جب کہ بعد میں انہیں برطانیہ کے ایک ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ صحت یاب ہونے کے بعد مقیم ہیں۔ ملالہ اب برطانیہ ہی میں زیر تعلیم ہیں۔ عالمی سطح پر ملالہ یوسف زئی کو تعلیم کے لیے آواز اٹھانے پر انتہائی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، تاہم پاکستان میں بعض طبقے ان پر تنقید کرتے ہيں اور انہیں ’مغربی ایجنٹ‘ قرار دیتے ہیں۔
پچھلے ہفتے جمعرات کے روز ملالہ کو یورپی یونین کی جانب سے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے پر انتہائی اہم سخروف ایوارڈ دیا گیا تھا جب کہ جمعے کو ملالہ یوسف زئی نے واشنگٹن میں امریکی صدر باراک اوباما اور ان کی اہلیہ مشیل اوباما سے ملاقات کی۔
ایک برطانوی نشریاتی ادارے سے بات چیت میں جب ان سے پوچھا گیا کہ ان پر ان کے اپنے ملک کے چند افراد ’مغرب کی کٹھ پتلی جو مغرب ہی میں بس گئی‘ جیسے الزامات عائد کرتے ہیں، ملالہ کا کہنا تھا کہ ان کے والد کہتے ہیں کہ تعلیم نہ مشرقی ہوتی ہے اور نہ مغربی ’تعلیم تعلیم ہوتی ہے اور یہ ہر انسان کا حق ہے۔‘
ملالہ نے کہا،’بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام نے میری حمایت کی۔ وہ نہیں سمجھتے کہ میں مغربی ہوں۔ میں پاکستان کی بیٹی ہوں اور مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’جس روز مجھے گولی لگی اس سے اگلے روز لوگوں نے بینر اٹھا رکھے تھے کہ میں بھی ملالہ ہوں۔ انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ طالبان ہیں۔‘
ملالہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عوام میں سے زیادہ تر افراد ان کی حمایت کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ میں آگے بڑھوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھاتی رہوں۔