پاکستان کی بگڑتی معیشت اور نوجوانوں کا تاریک ہوتا مستقبل
24 فروری 2023سولہ سالہ نادیہ اپنی والدہ کے ہمراہ روزانہ لاہور کی گنجان گلیوں میں ایک تھکا دینے والا سفر طے کرتی ہیں۔ ایک گھنٹہ طویل یہ مسافت ان کے گھر سے اس گھر تک کی ہے، جہاں وہ بطور ملازمہ کام کرتی ہیں اور واپسی کی ہوتی ہے۔
نادیہ کے اس کٹھن سفر کی شروعات پچھلے سال ہوئی تھی جب انہیں مجبوراﹰ پڑھائی چھوڑ کہ اپنی والدہ کے ساتھ کام شروع کرنا پڑا تھا۔ تب ان کے اسکول کی تعلیم مکمل ہونے میں سات سال کا عرصہ باقی تھا لیکن ان کے غریب خاندان کو مالی سہارے کی بھی ضرورت تھی۔
نادیہ کے والد امین ایک سیکیورٹی گارڈ ہیں جن کی ماہانہ آمدنی محظ 18,000 روپے یعنی 65 ڈالر ہے۔ جب ان سے نادیہ کے تعلیم چھوڑنے سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا، "وہ میری بیٹی ہے لیکن ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ آگے اللہ مالک ہے۔"
اب نادیہ اور ان کی والدہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات بچانے کے لیے روزانہ اپنے کام کی جگہ تک پیدل سفر کرتی ہیں۔ یہ صورتحال اب پاکستان میں تباہی کے دہانے پر کھڑی معیشت کے اثرات سے نبرد آزما لوگوں کے لیےکوئی غیر معمولی بات نہیں۔
پاکستان کی بگڑتی معاشی صورتحال
سالوں کی مالی بد انتظامی اور سیاسی عدم استحکام کے باعث پاکستان کے معاشی حالات دگر گوں ہیں اور گزشتہ موسم گرما میں آئے تباہ کن سیلابوں اور عالمی سطح پر توانائی کی بڑھتی قیمتوں نے صورتحال کو بد تر بنا دیا ہے۔
جہاں ایک طرف پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے وہیں ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے 6.5 بلین ڈالر کے ایک بیل آؤٹ پیکج کی بحالی کے سلسلے میں ٹیکسوں اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی شرائط عائد کی ہیں۔
اس مد میں حکومت نے اس ہفتے لگژری اشیاء کی برآمدات پر ٹیکس میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ حکومت کا موقف ہے کہ اس کے ان اقدامات سے صرف اشرافیہ متاثر ہو گی۔ لیکن ساتھ ہی حکام نے ایندھن پر عائد سبسڈی ختم اور جنرل سیلز ٹیکس میں اضافہ بھی کیا ہے، جس کا کم آمدنی والے خاندانوں پر منفی اثر پڑے گا۔
اس حوالے سے نادیہ کی والدہ معراج کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب گیس، بجلی اور گھر کے دیگر بڑھتے اخراجات کی وجہ سے ان کے لیے گزارہ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے تو وہ نادیہ کو اسکول کیسے بھیجیں۔
لڑکیوں کی تعلیم
عالمی صنفی مساوات کی درجہ بندیوں میں پاکستان کی رینکنگ مسلسل مایوس کن رہی ہے اور شادی کے وقت جہیز دینے کی رسم کی بنا پر بیٹیوں کو عموماﹰ مالی بوبھ میں اضافے کا باعث تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن امین کی سوچ ذرا مختلف ہے۔ وہ اس امید سے اپنی چھ بیٹیوں کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں کہ وہ ان کے خاندان کی نسلوں سے چلی آ رہی غربت ختم کر سکیں گی۔ فی الحال امین کی پانچ بیٹیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، جن کی اسکول فیس ان کے آجر دیتے ہیں۔ لیکن بڑھتی مہنگائی اور بگڑتی معاشی صورتحال کے باعث اب انہیں اپنی تیرہ سالہ دوسری بیٹی کی تعلیم کا سلسلہ بھی شاید ختم کرانا پڑے۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ بھی نادیہ ہی کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گی۔
اپنی والدہ کے ساتھ کام سے واپسی کے بعد نادیہ روزانہ اپنے گھر والوں کے لیے کھانا بناتی ہیں۔ رات گئے، جب ان کی بہنیں پڑھائی میں مصروف ہوتی ہیں تو وہ اپنے دو کمرے کے کرائے کے گھر کے فرش پر تھکن سے چور ہو کر گر پڑتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کیونکہ ان کے خاندان کی گزر بسر مشکل سے ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی پوری آمدنی اپنی والدہ کو دے دیتی ہیں۔ ان کو امید ہے کہ اپنے والدین کا مالی بوجھ بانٹ کر وہ شاید اپنی بہنوں کا مستقبل روشن بنا پائیں۔
امیر اور غریب کے مابین بڑھتا فرق
اسی ہفتے صدر پاکستان عارف علوی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کی نصف آبادی کو مزدوری یا گداگری کرنا پڑ سکتی ہے۔
اس وقت پاکستان کی مجموعی آبادی 220 ملین ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ اور ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق اس کا پانچویں سے زیادہ حصہ خط غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ اور بڑھتی مہنگائی، جو اب 30 فیصد کے قریب پہنچ گئی ہے، نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔
ملک میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے اور بہت سے دولت مند لوگ اب بھی ٹیکس نہیں دیتے۔ اس بات کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس محصولات مجموعی ملکی پیداوار کا صرف نو فیصد ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایشیا میں یہ اوسط شرح 20 فیصد ہے۔
اسی ماہ سوشل میڈیا پر لاہور میں کینیڈین آؤٹ لیٹ 'ٹم ہورٹنز' کے باہر لوگوں کی لمبی قطاروں کی تصاویر گردش کر رہی تھیں۔ ان میں اکثریت ان صاحب حیثیت افراد کی تھی جو 700 روپے کی کافی پینا چاہتے تھے، جس کی قیمت پاکستان میں اکثر مزدوروں کی یومیہ اجرت سے زیادہ ہے۔
ان کے برعکس نادیہ کا خاندان دن میں صرف دو وقت کھانا کھا پاتا ہے، انہوں نے دودھ خریدنا بند کر دیا ہے اور گوشت اب ان کی دسترس سے باہر ہے۔ لیکن نادیہ کہتی ہیں کہ اگر ان کو اب بھی آٹے اور اسکول کی کتابوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو ان کا انتخاب کتابیں ہوں گی۔
جبکہ ان کی والدہ معراج اپنی کمسن بیٹی کی تعلیم ختم کرانے اور اس کے ممکنہ تاریک مستقبل کے بارے میں سوچ کر افسردہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دکھ ''ایک ماں کو اندر سے کھا جاتا ہے۔‘‘
م ا / ش ر (اے ایف پی)