پاکستان کی جملہ سیاسی، معاشی صلاحیتیں استعمال کیوں نہ ہوئیں؟
12 اگست 2022
قریب بائیس کروڑ کی آبادی والا ملک پاکستان چودہ اگست کو اپنے قیام کی پچھترویں سالگرہ منا رہا ہے۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسلم اکثریتی جنوبی ایشیائی ملک آج تک اپنی مجموعی سیاسی اور اقتصادی صلاحیت استعمال نہیں کر سکا۔
اشتہار
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والا پاکستان اگر آج تک خود کو دستیاب جملہ امکانات بروئے کار لا ہی نہیں سکا تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب اس ملک کو عشروں سے درپیش سیاسی اور معاشی عدم استحکام میں پوشیدہ ہے۔
دنیا کی چند گنی چنی اعلانیہ ایٹمی طاقتوں میں شمار ہونے والے پاکستان کی سرحدیں افغانستان، چین، بھارت اور ایران سے ملتی ہیں اور اپنی جغرافیائی حیثیت کے باعث وہ بہت منفرد اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل بھی ہے۔ برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں سے اسلام کے نام پر آزادی حاصل کرنے اور برصغیر کے مسلمانوں کی ایک علیحدہ اور خود مختار ریاست کے طور پر قائم ہونے والا پاکستان آج تک کئی مرتبہ ملکی فوج کے اقتدار پر قبضے کے نتائج کا سامنا کر چکا ہے۔
گزشتہ تین چوتھائی صدی کے دوران اس ملک پر فوجی آمروں کے اقتدار کا مجموعی عرصہ بھی عشروں میں بنتا ہے۔ اس لیے جب بھی وہاں جمہوریت آئی، مشکلات ہی کا شکار رہی اور المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوری طور پر منتخب کوئی ایک بھی سربراہ حکومت آج تک اپنی طے شدہ مدت اقتدار پوری نہیں کر سکا۔ ان حالات نے ملکی معیشت اور سیاست کی گاڑی کو کئی مرتبہ چلتے چلتے رستے سے اتار دیا اور نتیجہ وہ سیاسی اور معاشی بحران رہے، جن کی تازہ ترین مثالیں حالیہ مہینوں میں بھی دیکھنے میں آ چکی ہیں۔
آج کا پاکستان سیاسی طور پر منقسم ہے اور اسے شدید نوعیت کے مالیاتی اور اقتصادی بحران کا سامنا بھی ہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے پاکستان میں اس وقت مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ عوام کی زندگی مشکل تر ہو چکی ہے۔ لیکن سیاست دان ابھی تک ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی اور اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں ہی مصروف ہیں۔
کئی تجزیہ کار یہ شکایت کرتے ہیں کہ پاکستان میں زیادہ تر ایک ایسا طبقہ ہی اقتدار میں رہا ہے، جسے حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت، سماجی بہتری اور سیاسی اور اقتصادی محاذوں پر ملک کو بہت مضبوط بنانے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔
پاکستانی دارالحکومت میں مقیم انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن اور ماہر تعلیم فرزانہ باری نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اس بارے میں کہا، ''پاکستان ایک برائے نام آزاد ریاست ہے۔ دراصل یہ بہت نازک ریاست بھی ہے۔ برطانوی نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد اس ملک میں نہ تو سب کے لیے مساوی اقتصادی مواقع کی منزل حاصل کی جا سکی اور نہ ہی وسائل کی مساوی تقسیم کی۔‘‘
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
فرزانہ باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان پر حکومت فوج نے کی ہو یا سیاسی اشرافیہ نے، یہ اصل میں ایک غالب طبقہ ہی تھا، جس نے عوام کی سماجی اور معاشی سطحوں پر عملی بہتری پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دستیاب انسانی وسائل کو پوری طرح بروئے کار نہ لایا جا سکا اور تعلیم، روزگار، صحت اور بنیادی ڈھانچے جیسے کلیدی شعبے نظر انداز ہی کیے جاتے رہے۔
علاقائی عدم استحکام کے اثرات
پاکستان نے گزشتہ 75 برسوں میں کئی شعبوں میں کافی ترقی بھی کی ہے۔ لیکن افغانستان جیسے ہمسایہ ملک کا تقریباﹰ نصف صدی سے عدم استحکام کا شکار رہنا اور وہ جنگیں جو آج تک پاکستان براہ راست یا بالواسطہ طور پر لڑ چکا ہے، ان کے بھی اس ملک پر سماجی، سیاسی اور معاشی اثرات بہت واضح رہے ہیں۔
اقوام متحدہ اور امریکہ میں پاکستانی سفیر کے طور پر خدمات انجام دیتی رہنے والی ملیحہ لودھی نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''اپنی زرعی بنیاد بہتر بنانے، صنعتی شعبے کو ترقی دینے اور عوام کو شدید غربت سے نکالنے سمیت پاکستان نے کئی شعبوں میں واضح طور پر ترقی کی ہے۔ اس ملک کی ترقی میں اب متوسط طبقے کا حصہ بھی بہت زیادہ ہے، جو ملکی آبادی کا بہت بڑا حصہ بھی ہے۔ لیکن پاکستان کو کئی شدید چیلنج بھی درپیش ہیں۔ کئی ایک تو ایسے بھی جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور انہی چیلنجز نے اس ملک کو آج بھی جکڑا ہوا ہے۔‘‘
عدم اعتماد کی تحريک کب کب اور کس کس کے خلاف چلائی گئی؟
عمران خان ايسے تيسرے وزير اعظم بن گئے ہيں، جن کے خلاف عدم اعتماد کی تحريک چلائی گئی۔ اس سے قبل بے نظير بھٹو اور شوکت عزيز کو بھی تحريک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ يہ کب کب اور کيسے ہوا، جانيے اس تصاويری گيلری ميں۔
تصویر: Daniel Berehulak/Getty Images
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد
پاکستان مسلم ليگ نون کے صدر شہباز شريف نے اٹھائيس مارچ سن 2022 کو وزير اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی ميں عدم اعتماد کی تحريک جمع کرائی۔ اپوزيشن کا الزام ہے کہ حکومت ملک ميں معاشی، سياسی اور سماجی بدحالی کی ذمہ دار ہے۔ قومی اسمبلی کی 342 نشستوں ميں سے عمران خان کی جماعت پاکستان تحريک انصاف کی 155 ہيں۔ عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے حکومت کو 172 ووٹ درکار تھے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance
ملک آئينی بحران کا شکار
تحریک عدم اعتماد پر رائے دہی تین اپریل کو ہونا طے پائی تاہم ایسا نہ ہو سکا کيونکہ عمران خان کی درخواست پر صدر عارف علوی نے اسملبیاں تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا۔ سیاسی و قانوی تجزیہ کاروں کے مطابق پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جا سکتی ہیں اور اب یہ صورتحال پاکستان کے لیے ایک نئے سیاسی بحران کا باعث بن سکتی ہے۔
تصویر: Aamir QURESHI/AFP
شوکت عزيز کے خلاف کرپشن کے الزامات اور عدم اعتماد کی تحريک
اس سے قبل سن 2006 ميں بھی حزب اختلاف نے اس وقت کے وزير اعظم شوکت عزيز کے خلاف تحريک عدم اعتماد چلائی تھی۔ يہ پاکستان کی تاريخ ميں دوسرا موقع تھا کہ کسی وزير اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پيش کی گئی۔ اپوزيشن نے عزيز پر بد عنوانی کا الزام عائد کر کے يہ قدم اٹھايا تھا۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
تحريک ايک مرتبہ پھر ناکام
عدم اعتماد پر ووٹنگ ميں کاميابی کے ليے اپوزيشن کو 172 ووٹ درکار تھے مگر اس وقت کی اپوزيشن صرف 136 ووٹ حاصل کر پائی جبکہ وزير اعظم شوکت عزيز کو 201 ووٹ ملے۔ يوں يہ تحريک بھی ناکام رہی۔
تصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance
پاکستانی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک
پاکستانی کی تاريخ ميں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی تحريک سن 1989 ميں بے نظير بھٹو کے خلاف چلائی گئی تھی۔ مسلم ليگ نون سے وابستہ سابق وزير اعظم نواز شريف نے اس وقت يہ قرارداد پيش کرتے وقت بھٹو پر الزام لگايا تھا کہ ان کی پاليسياں تقسيم کا باعث بن رہی ہيں اور وہ فيصلہ سازی ميں ملک کی ديگر سياسی قوتوں کو مطالبات مد نظر نہيں رکھتيں۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
بے نظير بال بال بچ گئيں، اپوزيشن کی ’اخلاقی برتری‘
دو نومبر سن 1989 کو 237 رکنی پارليمان ميں عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہوئی۔ 107 نے اس کے حق ميں ووٹ ڈالا جبکہ 125 نے بے نظير بھٹو کی حمايت ميں فيصلہ کيا۔ اپوزيشن کو کاميابی کے ليے 119 ووٹ درکار تھے۔ يوں وہ صرف بارہ ووٹوں کے فرق سے کامياب نہ ہو سکی۔ پارليمان ميں اس وقت اپوزيشن ليڈر غلام مصطفی جتوئی اور پنجاب کے وزير اعلی نواز شريف نے اسے اپوزيشن کے ليے ’اخلاقی برتری‘ قرار ديا تھا۔
ملیحہ لودھی کے مطابق افغانستان کی صورت حال اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سلامتی کا ہے۔ لیکن ملکی اقتصادی ڈھانچہ بھی اس لیے توجہ طلب ہے کہ اس کی بہتری کے لیے بھی بہت کچھ کیا جانا ابھی باقی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم، آبادی میں اضافے کی شرح، تحفظ ماحول اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت بھی ایسے بڑے مسائل ہیں، جن کا ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا ناگزیر ہے۔
اشتہار
پاکستانی خارجہ پالیسی
پاکستان بین الاقوامی سطح پر اپنی سیاسی حکمت عملی کو دیرپا بنیادوں پر غیر جانبدار رکھتے ہوئے اپنی ممکنہ سیاسی حیثیت کو بھی اس حد تک نہیں منوا سکا، جس حد تک ایسا کرنا ممکن تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ملکی خارجہ پالیسی بھی رہی ہے۔
ماضی میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہنے والے اور اس وقت امریکہ ہی میں ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے ڈائریکٹر حسین حقانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''1947ء سے ہی پاکستانی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کا محور ایک ایسی نظریاتی سوچ رہی ہے، جس میں زیادہ بڑے لیکن دیرینہ حریف ہمسائے بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کی کوشش کی جاتی رہی۔ لیکن ساتھ ہی سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات، چین کے ساتھ روابط اور مسلم دنیا کے بہت سے اہم ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی 'انڈین فیکٹر‘ کو ہمیشہ پیش نظر رکھا گیا۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس دوران قومی سلامتی اور اقتصادی ترقی کو عملاﹰ یقینی بنانے کی کوششیں ناکافی تھیں۔‘‘
دنيا کے ہر ملک و قوم کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی ميدان ميں شہرت کے افق تک پہنچا جائے۔ پاکستان بھی چند منفرد اور دلچسپ اعزازات کا حامل ملک ہے۔ مزید تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
بلند ترین مقام پر اے ٹی ايم
دنيا بھر ميں سب سے زيادہ اونچائی پر اے ٹی ايم مشين پاکستان ميں ہے۔ گلگت بلتستان ميں خنجراب پاس پر سطح سمندر سے 15,300 فٹ يا 4,693 ميٹر کی بلندی پر واقع نيشنل بينک آف پاکستان کے اے ٹی ايم کو دنيا کا اونچا اے ٹی ايم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
سب سے کم عمر ميں نوبل انعام
سب سے کم عمر ميں نوبل امن انعام ملنے کا اعزاز بھی ايک پاکستانی کو حاصل ہوا۔ ملالہ يوسف زئی کو جب نوبل انعام سے نوازا گيا، تو اس وقت ان کی عمر صرف سترہ برس تھی۔ ملالہ سے پہلے ڈاکٹر عبداسلام کو سن 1979 ميں نوبل انعام کا حقدار قرار ديا گيا تھا۔
تصویر: Reuters/NTB Scanpix/C. Poppe
سب سے بلند شاہراہ
شاہراہ قراقرم دنيا کی بلند ترين شاہراہ ہے۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہوئی چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔
تصویر: imago
فٹ بالوں کا گڑھ - سیالکوٹ
سيالکوٹ اور اس کے گرد و نواح ميں سالانہ بنيادوں پر چاليس سے ساٹھ ملين فٹ باليں تيار کی جاتی ہيں۔ يہ فٹ بالوں کی عالمی پيداوار کا ساٹھ سے ستر فيصد ہے۔ خطے ميں تقريباً دو سو فيکٹرياں فٹ باليں تيار کرتی ہيں اور يہ دنيا بھر ميں سب سے زيادہ فٹ بال تيار کرنے والا شہر ہے۔
تصویر: Reuters
آب پاشی کا طويل ترين نظام
کنال سسٹم پر مبنی دنيا کا طويل ترين آب پاشی کا نظام پاکستان ميں ہے۔ يہ نظام مجموعی طور پر چودہ اعشاريہ چار ملين ہيکڑ زمين پر پھيلا ہوا ہے۔
تصویر: Imago/Zuma/PPI
ايمبولينسز کا سب سے بڑا نيٹ ورک
ايمبولينسز کا سب سے بڑا نيٹ ورک پاکستان ميں ہے۔ يہ اعزاز غير سرکاری تنظيم ايدھی فاؤنڈيشن کو حاصل ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A. Hassan
سب سے کم عمر کرکٹر
سب سے کم عمر ميں انٹرنيشنل کرکٹ کھيلنے کا اعزاز بھی ايک پاکستانی کرکٹر کو حاصل ہے۔ حسن رضا کی عمر صرف چودہ برس اور 227 دن تھی جب انہوں سن 1996 ميں فيصل آباد ميں زمبابوے کے خلاف پہلا بين الاقوامی ميچ کھيلا۔
تصویر: Getty Images
کرکٹ ميں سب سے تيز رفتار گيند
کرکٹ کی تاريخ ميں سب سے تيز رفتار گيند کرانے کا اعزاز شعيب اختر کو حاصل ہے۔ اختر نے سن 2003 ميں انگلينڈ کے خلاف ايک ميچ کے دوران 161.3 کلوميٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ايک گيند کرائی۔
تصویر: AP
سب سے کم عمر سول جج
محمد الياس نے سن 1952 ميں جب سول جج بننے کے ليے امتحان پاس کيا، تو اس وقت ان کی عمر صرف بيس برس تھی۔ انہيں اس شرط پر امتحان دينے کی اجازت دی گئی تھی کہ وہ امتحان پاس کرنے کی صورت ميں بھی 23 سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ملازمت نہيں کريں گے۔ تاہم بعد ميں نرمی کر کے انہيں آٹھ ماہ بعد بطور سول جج کام کی اجازت دے دی گئی۔ محمد الياس سب سے کم عمر سول جج تھے۔
حسین حقانی کے بقول، ''پاکستان کو مغربی دنیا میں ایک ایسا ملک سمجھا جاتا ہے، جہاں بار بار فوج اقتدار پر قبضہ کر کے حکومت کرتی رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو ایک ایسا ملک بھی سمجھا جاتا ہے، جہاں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن اپنی زندگی کے آخری کئی برسوں کے دوران مقیم رہا تھا۔‘‘
اسی تناظر میں ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ پاکستان کو طویل المدتی بنیادوں پر اس سیاسی تعطل اور جمود نے بھی بہت نقصان پہنچایا، جو کسی بھی جمہوری حکومت کا تختہ الٹے جانے اور فوج کے اقتدار میں آنے کے ہر واقعے کے بعد سال ہا سال تک دیکھنے میں آتا رہا۔
مستقبل کی ترجیحات
پاکستان کو اپنے موجودہ سیاسی، اقتصادی اور سماجی مسائل سے نکلنے کے لیے اب کرنا کیا چاہیے؟ حسین حقانی اس حوالے سے کہتے ہیں، ''آگے بڑھنے کے لیے پاکستان اور اس کے عوام کو اب اس ملک میں ہمیشہ گردش کرتے رہنے والے سازشی نظریات اور نظریاتی بیانیوں کی سوچ ترک کرنا ہو گی۔ اس کے برعکس توجہ انسانی وسائل کی ترقی، سیاسی اداروں کی مضبوطی اور اقتصادی ڈھانچے کی بہتری پر مرکوز کی جانا چاہیے۔‘‘
اس سلسلے میں ماہر تعلیم اور انسانی حقو ق کی کارکن فرزانہ باری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس وقت پاکستان میں کئی معاملات میں صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں اور تنقیدی آوازیں بلند کرنے والوں کی جبری گم شدگیوں سے لے کر بااثر حلقوں کے سزاؤں سے بچے رہنے کی روایت اور ہر جگہ پائی جانے والی سماجی ناانصافی تک۔ لیکن اس ملک کی نوجوان نسل میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں اور بڑھتے ہوئے سماجی شعور کے ساتھ ساتھ انصاف پسندی بھی ایک اجتماعی سوچ بنتی جا رہی ہے۔ یہی عوامل اب اس امید کی وجہ بنتے جا رہے ہیں کہ پاکستان مستقبل میں ترقی اور بہتری کے راستے پر اپنا سفر جاری رکھے گا۔‘‘
م م / ک م (ہارون جنجوعہ)
کرتارپور راہداری پاکستان کی امن کی خواہش کا ثبوت ہے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے گردوارہ دربار صاحب کا دورہ کیا اور کرتارپورراہداری کو پاکستان کی امن کی خواہش کا ثبوت ٹہرایا۔ انہوں نے پولیو کے خاتمے کے لیے پاکستان کے اقدامات کو بھی سراہا۔
تصویر: Press information Department of Pakistan
گردوارہ دربار صاحب کا دورہ
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اپنے دورہ پاکستان کے دوران منگل کے روز کرتارپور میں پاکستان اور بھارت کی سرحد کے قریب واقع سکھوں کے مقدس مقام گردوارہ دربار صاحب بھی گئے۔ گوٹیرش کا کہنا تھا،’’ کرتارپور راہ داری اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان امن چاہتا ہے۔‘‘ اس موقع پر انہیں کرتار پورراہداری کے حوالے سے بریفنگ بھی دی گئی۔
تصویر: Press information Department of Pakistan
اقلیتوں کے بارے میں بریفنگ
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اپنے دورہ پاکستان کے دوران منگل کے روز کرتارپور میں پاک بھارت سرحد کے قریب واقع سکھوں کی مقدس مقام گوردوارہ دربار صاحب پہنچے تو ان کا استقبال پاکستان کے وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری اور گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے رہنماوں نے کیا۔ انہیں پاکستان میں اقلیتوں کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں بھی بتایا گیا۔
تصویر: Press information Department of Pakistan
’پاکستان ماضی کے مقابلے میں اب بہت محفوظ ملک ہے‘
پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے جاری مہم سے اظہار یک جہتی کے لئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش جب لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے میں واقع کنڈر گارٹن سکول پہنچے تو وہاں پر ان کو بچوں نے پھولوں کے گلدستے پیش کیے۔ وہ بچوں سے گھل مل گئے اور انہوں نے بچوں کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ انہیں پاکستان آکر اچھا لگا۔ پاکستان ماضی کے مقابلے میں اب بہت محفوظ ملک ہے۔
تصویر: Press information Department of Pakistan
پولیو ورکرز نے بہت قربانیاں دیں، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل
انٹونیو گوٹیریش نے اپنے ہاتھوں سے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے ۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا،’’ میں پولیو ورکرز کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہوں، جنہوں نے پولیو کو ختم کرنے کے لیے اپنی زندگیاں قربان کیں۔‘‘ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بھی اس موقع پر کنڈر گارٹن سکول میں موجود تھیں۔
تصویر: Press information Department of Pakistan
’پاکستان پولیو کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے‘
کنڈر گارٹن سکول کے دورہ پر سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انٹونیو گوٹیریش نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا،’’ ہم مل کر پولیو کا خاتمہ کریں گے۔ پولیو کے مرض کا خاتمہ ضروری ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہو سکے۔ مجھے خوشی ہے کہ پاکستان پولیو کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔‘‘ میں پوری دنیا کے لیڈر سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مل کر پولیو کا خاتمہ کریں۔
تصویر: Press information Department of Pakistan
لمز کا دورہ
اپنے دورہ لاہور کے دوران منگل کی صبح اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز بھی گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کے لیے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق نصاب میں بہتری لائی جانی چاہیے اور نوجوانوں کو نئی ٹیکنالوجی سے مزین کیا جانا چاہیے۔
تصویر: Press information Department of Pakistan
لمز میں طلباء سے خطاب
انٹونیو گوٹیریش نے لاہوریونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں اپنے خطاب میں دور حاضر میں اقوام عالم کو درپیش مسائل کے حل کے لیے نوجوانوں کی سیاسی عمل میں شمولیت اور عالمی اداروں میں نوجوانوں کی شرکت بہتر بنانے پر زور دیا۔