پاکستان کی جنوبی افریقہ کے خلاف 18 سال بعد ہوم ٹیسٹ میں فتح
طارق سعید
29 جنوری 2021
پاکستان نے جنوبی افریقہ کو کراچی ٹیسٹ میں سات وکٹ سے شکست دے کر سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کر لی۔ یہ پاکستان کی جنوبی افریقہ کے خلاف اپنی سرزمین پر 18 سال بعد پہلی کامیابی ہے۔
اشتہار
پاکستانی اسپنرز نعمان علی اور یاسر شاہ کی تباہ کن باؤلنگ کی تاب نہ لاتے ہوئے مہمان ٹیم دوسری اننگز میں 245 رنز بنا سکی۔ اس طرح پاکستان کو جیتنے کے لیے صرف 88 رنز کا ہدف ملا تھا پاکستان یہ ہدف تین وکٹوں پر پورا کر لیا۔
اس سے قبل آخری بار پاکستان نے ہوم سیریز میں محمد یوسف کی کپتانی میں دو ہزار تین میں جنوبی افریقہ کو لاہور ٹیسٹ ہرایا تھا۔ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ میں ہارنے کے بعد یہ فتح پاکستان کرکٹ کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔
مرد میدان فواد عالم
فواد عالم نے پہلی اننگز میں تیسری سینچری بنا کر پاکستانی کامیابی کی راہ ہموار کی۔ فواد عالم جو گیارہ برس تک ٹیسٹ کرکٹ سے دور رہے اپنے ہوم گراؤنڈ نیشنل اسٹیڈیم میں پہلی بار کھیل رہے تھے۔ انہوں نے پہلی اننگز میں چار وکٹ 27 رنز پر گرنے کے بعد مشکل حالات میں 'مین آف کرائسس' کا کام کیا۔پہلی اننگز میں فہیم اشرف اور اظہر علی نے بھی نصف سینچریاں بنائیں۔
فواد عالم نے ہی چوتھے روز کی سہہ پہر میچ وننگ شاٹ کھیلا۔ مین آف دی میچ کاایوارڈ جیتنے کے بعد فواد کا کہنا تھا کہ ان کی اننگز اس لیے اہم تھی کہ ٹیم کو اس کی اشد ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی ہمیشہ ایک مشکل کام ہے لیکن میں ڈریسنگ روم میں پھر محظوظ ہو رہا ہوں۔ فواد کے مطابق نیشنل اسٹیڈیم کی پچ بیٹنگ کے لیے مشکل تھی جس پر دوہرا باؤنس تھا مگر انہوں نے پچ کی زیادہ فکر کیے بغیر پرسکون رہ کر کھیل پیش کیا۔
سانگھڑ کا اسپنر
پاکستانی کرکٹ ٹیم اس میچ میں دو اسپنرز یاسر شاہ اور سندھ کے شہر سانگھڑہ سے تعلق رکھنے والے نعمان علی کے ساتھ میدان میں اتری تھی۔ دونوں نے میچ میں 14 وکٹیں حاصل کیں۔ 34 سالہ نعمان علی نے اپنے پہلے ٹیسٹ میں دوسری اننگز میں صرف 35 رنز کے عوض پانچ وکٹ لیے۔ اس طرح اپنے ڈیبیو پر پانچ وکٹ لینے والے وہ پہلے پاکستانی لیفٹ آرم اسپنر بن گئے۔ نعمان سے پہلے پاکستان کے گیارہ باؤلرز اپنے پہلے ٹیسٹ میں پانچ وکٹ لینے کارنامہ انجام دے چکے ہیں جن میں نزیر جونئیر، شاہد آفریدی اور بلال آصف جیسے اسپنرز بھی شامل ہیں۔ نزیر جونئیر اور بلال آصف آف اسپنر جبکہ شاہد آفریدی لیگ اسپنر تھے۔
اشتہار
بابر کا بلا خاموش
بابر اعظم کا بطور کپتان یہ پہلا ٹیسٹ تھا۔ وہ انگلی کی چوٹ کی وجہ سے نیوزی لینڈ میں نہیں کھیل سکے تھے۔ یہ میچ کپتان کی حیثیت سے بابر کے لیے یادگار ثابت ہوا مگر وہ بیٹنگ اور فیلڈنگ کے معیار پر پورا نہ اتر سکے۔ بیٹنگ میں وہ پہلی اننگز میں سات اور دوسری میں صرف تیس رنز بنا کر جنوبی افریقہ کے لیفٹ آرم اسپنر کشو مہاراج کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہوئے۔ اس پر مستزاد جنوبی افریقہ کی دوسری اننگز میں پاکستانی کپتان اگر مارکرام اور فاف ڈوپلیسی کے سلپ کیچ نہ گراتے تو شاید ان کی ٹیم اننگز کے فرق سے جیت جاتی۔
بلے بازوں کے چھکے چھڑا دینے والے گیند باز
کرکٹ کی دنیا میں سن 1990 کے دہائی سے لے کر اب تک سینکڑوں گیند بازوں نے بین الاقوامی کرکٹ کھیلی۔ تاہم ان میں چند ہی ایسے باؤلر تھے جو حریف بلے بازوں کے اعصاب پر سوار ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Mason
وسیم اکرم (1984 تا 2003)
چھوٹے رن اپ کے ساتھ بائیں بازو سے تیز رفتار سوئنگ باؤلنگ کرنے والے وسیم اکرم کو خطرناک ترین باؤلرز میں سرفہرست کہنا غلط نہ ہو گا۔ دو دہائیوں پر مبنی اپنے کیریئر میں انہوں نے انتہائی ماہر بلے بازوں کے ناک میں بھی دم کیے رکھا۔ وسیم ایک روزہ میچوں میں پانچ سو وکٹیں لینے والے واحد تیز گیند باز ہیں۔ انہوں نے ایک روزہ میچوں میں بھی 414 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tallis
وقار یونس (1989 تا 2003)
وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی بھی خطرناک ترین باؤلرز میں شمار کی جاتی تھی۔ وقار یونس وکٹوں کی دوڑ میں وسیم اکرم سے پیچھے رہے۔ ان کے تیز رفتار اِن کٹرز خاص طور پر دائیں بازوں سے بیٹنگ کرنے والے بلے بازوں کی وکٹیں اڑا دیا کرتے تھے۔ وقار یونس نے بین الاقوامی ٹیسٹ میچوں میں 373 اور ایک روز میچوں میں 416 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: AP
کرٹلی ایمبروز (1988 تا 2000)
سن نوے کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کے کرٹلی ایمبروز اور کرٹنی واش کی جوڑی مخالف ٹیم کے بلے بازوں کو ناکوں چنے چبوانے میں شہرت رکھتی تھی۔ ایمبروز نے واش کے مقابلے میں وکٹیں تو کم حاصل کیں لیکن ان کا بلے بازوں پر دبدبہ کہیں زیادہ رہتا تھا۔ چھ فٹ سات انچ قد والے دراز قامت باؤلر کا شمار اپنے وقت کے خطرناک ترین گیند بازوں میں ہوتا تھا۔
تصویر: Imago Images/Mary Evans
شین وارن (1992 تا 2007)
آسٹریلوی لیگ اسپنر شین وارن بلے بازوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوتے تھے۔ شین وارن کو نہ صرف ہاتھ میں پکڑی گیند کو سپن کرنے میں مہارت حاصل تھی بلکہ وہ اپنے سامنے کھڑے بلے باز کے اعصاب پر سوار ہو جایا کرتے تھے۔ بلے باز کے دماغ کو پڑھ لینے کی صلاحیت انہیں مزید خطرناک بنا دیتی تھی۔ انہوں نے ٹیسٹ میچوں میں 708 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: dapd
متھیا مرلی دھرن (1992 تا 2011)
سری لنکن اسپنر ٹیسٹ اور ون ڈے میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے صرف زیادہ وکٹیں ہی نہیں حاصل کیں، بلکہ بلے بازوں پر ان کا رعب بھی بہت تھا۔ دنیا کے ماہر ترین بلے باز بھی ان کی انوکھی آف اسپن باؤلنگ کا مقابلہ کرتے وقت چوکس ہو جاتے تھے۔ مرلی دھرن نے اپنے کیریئر کے دوران ٹیسٹ میچوں میں 800 اور ون ڈے میں 534 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: AP
گلین میک گَرا (1993 تا 2007)
عالمی سطح پر تیز گیند بازی میں لائن اور لینتھ کے اعتبار سے میک گرا کا شاید ہی کوئی دوسرا باؤلر مقابلہ کر پائے۔ بلے بازوں کو باندھ کر رکھنے والے آسٹریلوی گیند باز نے ٹیسٹ میچوں میں 563 اور ون ڈے میچوں میں 381 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Getty Images/C. Mason
انیل کمبلے (1990 تا 2008)
بھارتی لیگ اسپنر انیل کمبلے گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران ایسے واحد باؤلر ہیں جنہوں نے ٹیسٹ میچ کی ایک اننگز میں 10 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran
ثقلین مشتاق (1995 تا 2004)
عالمی کرکٹ میں ون ڈے میچ کے آخری اوورز میں اسپن باؤلنگ کرانے اور ’دوسرا‘ متعارف کرانے والے پاکستان آف سپنر ثقلین مشتاق ہی ہیں۔ ثقلین 200 ون ڈے وکٹیں حاصل کرنے والے کم عمر ترین گیند باز بھی ہیں۔
تصویر: Imago Images/Mary Evans
شان پولک (1995 تا 2008)
جنوی افریقہ کے شان پولک نے کئی ٹاپ آرڈر بلے بازوں کو دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کیے رکھا۔ ان کی رفتار بہت تیز نہیں تھی لیکن عمدہ لائن اور لینتھ اور اس میں بھی ایک خاص تسلسل، ان کی کامیابی کا راز رہا۔ پولک نے ٹیسٹ میچوں میں 421 اور ون ڈے میں 393 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Imago Images/Colorsport
شعیب اختر (1998 تا 2011)
پاکستانی گیند باز شعیب اختر کی انتہائی تیز رفتار باؤلنگ نے انہیں ایک انتہائی خطرناک باؤلر بنایا۔ 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والے باؤنسرز اور یارکرز ان کے سامنے کھڑے بلے بازوں پر ہیبت طاری کر دیتے تھے۔ شعیب اختر کا سامنا کرتے وقت ساروو گنگولی، برائن لارا اور گیری کرسٹن جیسے بلے باز بھی پریشان دکھائی دیتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kodikara
لاسیت ملنگا (2004 سے اب تک)
سری لنکا کے تیز گیند باز لاسیت ملنگا نے اپنے کیریئر کے شروع ہی میں منفرد باؤلنگ ایکشن اور تیز رفتار یارکرز کے ساتھ بلے بازوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ ملنگا اب بھی کرکٹ کھیل رہے ہیں لیکن ان کی رفتار کچھ کم پڑ چکی ہے۔ انہوں نے اپنی زیادہ تر وکٹیں سن 2007 اور سن 2014 کے درمیان حاصل کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/empics/PA-Wire/S. Cooper
جسپرت بمرا (2016 سے اب تک)
بھارتی گیند باز جسپرت بمرا گزشتہ چند برسوں کے دوران ایک خطرناک باؤلر بن کر ابھرے ہیں۔ گیند کی رفتار میں غیر معمولی انداز میں تغیر اور انتہائی درست یارکرز کے باعث بمرا خاص طور ڈیتھ اوورز میں انتہائی خطرناک باؤلر ہیں۔ بمرا 60 ون ڈے میچوں میں سو وکٹیں اور درجن بھر ٹیسٹ میچوں میں بھی 60 سے زائد وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Dennis
12 تصاویر1 | 12
میچ کے بعد بابر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کے باؤلرز نے ٹیسٹ میں ٹیم کو اچھا آغاز فراہم کیا،'' فواد عالم اور اظہر علی کا تجربہ ٹیم کے کام آیا۔ فواد کی کارکردگی اعلیٰ تھی‘‘۔ بابر نے ٹیم کی فیلڈنگ کی بھی تعریف کی اور کہا کہ پاکستان نے جنوبی افریقہ جیسی بڑی سائیڈ کو ہرانے کے لیے سلو وکٹ تیار کی تھی اور یہ منصوبہ کامیاب رہا۔
پاکستان کرکٹ کا قلعہ اور مصباح
نیشنل اسٹڈیم کراچی کو پاکستان کرکٹ کا قلعہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں پاکستان ماضی میں صرف دو ٹیسٹ میچوں میں انگلینڈ اور جنوبی افریقہ شکست ہوئی ہے۔ 1955ء سے 2000ء تک پاکستانی ٹیم نیشنل اسٹڈیم میں ناقابل شکست رہی تھی۔ جنوبی افریقہ کو اس میچ میں شکست دینے سے پہلے پاکستان نے گزشتہ سیزن میں سری لنکا کو بھی یہاں شکست دینے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فتح کے ساتھ مصباح کی کپتانی یا کوچنگ میں کسی ہوم ٹیسٹ سیریز میں نہ ہارنے کا اعزاز بھی پاکستان نے برقرار رکھا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان نے مصباح کی کپتانی میں خلیج میں جو اٹھائیس ٹیسٹ کھیلے تھے ان میں سولہ میچز جیتنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
مارگلہ کا معرکہ
پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان دوسرا اور آخری ٹیسٹ چار فروری سے راولپنڈی میں کھیلا جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے راولپنڈی کی پچ جو ہمیشہ سے فاسٹ باولرز کی مددگار رہی ہے اپنی روایت برقرار رکھ سکے گی۔