آئی ایس آئی کے سربراہ سے پہلے پاکستان کی قومی اسمبلی کے ا سپیکر ایاز صادق نے ایک پارلیمانی وفد کے ساتھ افغانستان کا دورہ کیا تھا، جب کہ اس سے پہلے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل بلال اکبر بھی کابل ہو کر آئے تھے۔ ان پے در پے دوروں پر تبصرہ کرتے ہوئے میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان، افغانستان اور امریکا نے امن کے لئے کوششیں شروع کر دی ہیں کیونکہ طالبان کو روس کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان میں پختونوں کو ان کی آبادی کے لحاظ سے اقتدار میں حصہ دیا جائے۔ پختون وہاں کی اکثریتی لسانی اکائی ہیں۔ ہمارا یہ ہمیشہ سے موقف تھا لیکن اسے تسلیم نہیں کیا جارہا تھا۔ اب ایسا محسو س ہوتا ہے کہ ہمارے اس موقف کو اہمیت دی جا رہی ہے اور افغانستان کے مسئلے پر بات چیت ہو رہی ہے۔ ٹرمپ کو پسیفک، شمالی کوریا سمیت کئی مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ اندورنی طور پر بھی اس کی مشکلات زیادہ ہیں۔ پہلے تو وہ افغانستان کے مسئلے کو نظرانداز کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے جنرلز نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اب وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ حال ہی میں جنرل میک ماسٹر نے پاکستان و افغانستان کا دورہ کیا اور اب پاکستانی حکام بھی کابل جارہے ہیں۔ تو داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیشِ نظر تمام اسٹیک ہولڈر چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ پاکستان میں سول اور ملٹری لیڈرشپ اس مسئلے کے حوالے سے ایک ہی صفحے پر ہیں اور حکومت نے اس معاملے پر فوج کو لیڈ دی ہوئی ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’امریکا کو افغانستان میں زمینی حقائق کو سمجھنا ہوگا۔ وہاں چالیس فیصد سے زیادہ حصے پر افغان طالبان کی عملداری ہے۔ افغان نیشنل آرمی میں بھی وہ سرائیت کر گئے ہیں اور جیسے ہی امریکا یہاں سے جائے گا، یہ آرمی کچھ ہی دنوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ اس میں تیس فیصد سے زیادہ گھوسٹ سپاہی ہیں۔ اب روس بھی طالبان کی حمایت کر رہا ہے، جس سے وہاں جنگ میں شدت آسکتی ہے اور پاکستان ایسا نہیں چاہتا کیونکہ اگر جنگ میں شدت آئی تو مہاجرین کے سیلاب کا رخ پاکستان کی طرف ہوگا۔ ہمارے خیال میں خطے کے ممالک سے مشاورت کے بعد یہاں امریکی فوج کی جگہ اقوامِ متحدہ کے امن دستے کو آنا چاہیے جو یہاں صاف و شفاف انتخابات کرائیں، جس میں طالبان بھی شامل ہوں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان اب آئی ایس آئی پر بھروسہ نہیں کرتے،’’امریکا صرف ان افراد سے بات چیت کرنا چاہتا ہے، جو اس سے براہ راست بات کرنا چاہتے ہیں۔ افغان طالبان اب ہم پر بھروسہ نہیں کرتے کیونکہ پہلے مذاکرات شروع ہوئے تو ملا عمر کی موت کی خبر آگئی۔ پھر شروع ہوئے تو ملا اختر منصور کو ہلاک کر دیا گیا حالانکہ وہ مری مذاکرات میں شامل تھا۔ طالبان مذاکرات کریں گے لیکن اس کے ساتھ ان کی عسکری کارروائیاں بھی جاری رہیں گی کیونکہ وہ کمزور پوزیشن میں رہ کر مذاکرات کرنا نہیں چاہتے۔ اسی مقصد کے لئے انہوں نے یہ آپریشن منصوری شروع کیا ہے۔‘‘
دفاعی تجزیہ نگار لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خیال میں پاکستان اور افغانستان میں انٹیلیجنس شیئرنگ کے معاہدے کے لئے بات چیت ہو رہی ہے، ’’ہم نے کابل حکومت سے کہا تھا کہ ہم افغان طالبان کی حرکت کے حوالے سے آپ کو اطلاعات دیں گے اور آپ ہمیں پاکستانی طالبان کے حوالے سے اطلاعات دیں لیکن پھر انہوں نے اس پر بات نہیں کی۔ اب یہ لگتا ہے کہ ایسا کوئی معاہدہ ہونے جا رہا ہے، جس میں اطلاعات کا تبادلہ ہوگا اور موبائل کے ٹاورز کی تنصیب کے حوالے سے بھی بات چیت ہوگی کیونکہ ان ٹاورز کی وجہ سے دہشت گرد پاکستان و افغانستان کی سمیں آسانی سے استعمال کر لیتے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’افغان طالبان کی نقل و حرکت کے حوالے سے اطلاعات شیئر کرنا بالکل ہمارے قومی مفاد میں ہے کیونکہ ہم نے آپریشن ضربِ عضب کے وقت افغان طالبان کو یہ بتا دیا تھا کہ پاکستانی سرزمین کسی عسکری کارروائی کے لئے استعمال نہیں ہوگی۔ ہم نے ان کا بنیادی ڈھانچہ شمالی وزیرِ ستان میں تباہ کیا۔ یہاں سے چیچن اور ازبک سمیت تمام دہشت گرد بھاگ گئے ہیں۔ اب افغانستان کے ایک بڑے حصے پر طالبان کی عمل داری ہے تو وہ پاکستان کیوں آئیں گے۔‘‘
لیکن افغان مسئلے کے سب سے اہم اسٹیک ہولڈر افغان طالبان کہتے ہیں کہ وہ ان مذاکرات کا حصہ نہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہی پاکستانی حکام نے ہم سے مشورہ کیا اور نہ ہی ہم نے ان سے کوئی بات چیت کی۔کابل حکومت نے بھی ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ پاکستان وافغانستان کے آپس میں بھی سفارتی تعلقات ہیں۔ ہو سکتا ہو کہ یہ دورے باہمی مسائل کے حوالے سے ہوں۔ ہمارا ان دوروں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے ہماری پوزیشن واضح ہے کہ جب تک امریکا اپنا قبضہ ختم نہیں کرتا ، کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ جب امریکا یہاں سے چلا جائے گا تب ہمارے علماء اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ آیا ہم انتخابات میں حصہ لیں یا کوئی اور راستہ اختیار کریں۔ ابھی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ذبیح اللہ نے کہا، ’’ہمارے روس اور چین سے رابطے ہوئے تھے لیکن یہ روابط چھ یا آٹھ مہینے پہلے ہوئے تھے۔ ہم نے آپریشن منصوری کا اعلان کیا ہے اور ہم یہ حملے جاری رکھیں گے۔‘‘
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا کے چالیس سے زائد ممالک افغانستان میں موجود رہے۔ بم دھماکے آج بھی اس ملک میں معمول کی بات ہیں۔ نیٹو افواج کا جنگی مشن اختتام پذیر ہو گیا ہے لیکن ان کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpaگیارہ ستمبر 2001ء کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے مجموعی طور پر چار مسافر طیارے اغوا کیے۔ دو کے ذریعے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا۔ ایک تیسرے جہاز کے ساتھ امریکی پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا جبکہ چوتھا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ ان حملوں میں کل تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpaان حملوں نے امریکی حکومت کو افغانستان پر حملہ آور ہونے کا جواز فراہم کیا اور بش حکومت نے سات اکتوبر کو اسامہ بن لادن کے ممکنہ ٹھکانوں پر بمباری کا آغاز کیا۔ تیرہ نومبر 2001ء کو دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا گیا۔ طالبان نے پاک افغان سرحدی علاقوں میں پسپائی اختیار کر لی۔
تصویر: picture-alliance/dpaطالبان کے زوال کے بعد اقوام متحدہ کی چھتری تلے افغانستان پر چار بڑے نسلی گروپوں کے رہنما بون کے قریبی مقام پیٹرزبرگ کی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ شرکاء نے جمہوریت کے نفاذ کے لیے پانچ دسمبر 2001ء کو صدر حامد کرزئی کے تحت عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق کیا۔
تصویر: Getty Imagesبائیس دسمبر 2001ء کو جرمن پارلیمان کی اکثریت نے اقوام متحدہ کے ’مشن فریڈم‘ میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔ انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کو مقامی حکومت کی تعمیر نو میں مدد اور سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کا کام سونپا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpaچھ مارچ 2002ء کو ایک دو طرفہ لڑائی میں پہلا جرمن فوجی ہلاک ہوا۔ اس کے بعد جرمن فوجیوں کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ سات جون 2003ء کو کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس میں چار فوجی ہلاک اور دیگر انتیس زخمی ہوئے۔ جرمن فوجیوں پر یہ پہلا خودکش حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpaجنوری 2004ء کو افغانستان کے نئے جمہوری آئین کی منظوری دی گئی۔ 502 مندوبین نے صدارتی نظام کے تحت ’اسلامی جمہوریہ افغانستان‘ میں انتخابات کی راہ ہموار کی۔ نو اکتوبر 2004ء کو حامد کرزئی نے فتح کا جشن منایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photoاکتیس مارچ 2004ء کو برلن کانفرنس کے دوران بین الاقوامی برادری نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 8.2 ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ جرمنی نے 80 ملین یورو دینے کا وعدہ کیا۔ اس کانفرنس میں منشیات کے خلاف جنگ اور ایساف دستوں کی مضبوطی کا اعلان بھی کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photoاکتیس جنوری 2006ء کو لندن کانفرنس میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان کے لیے پانچ سالہ منصوبے اور 10.5 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد سکیورٹی کے نام پر متعدد کانفرنسوں کا انعقاد ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpawebچار ستمبر 2009ء کو طالبان نے تیل کے بھرے دو ٹینکروں کو اغوا کیا۔ جرمن کرنل گیورگ کلائن نے فضائی حملے کے احکامات جاری کر دیے، جس کے نتیجے میں تقریبا ایک سو عام شہری مارے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن فوجیوں کا یہ سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔ شدید تنقید کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpaاکتیس مئی 2010ء کو افغانستان میں جرمن فوجیوں کے ساتھ ملاقات کے بعد واپسی پر جرمن صدر ہورسٹ کوہلر نے ایک متنازعہ انٹرویو دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جنگ جرمن اقتصادی مفادات کی وجہ سے لڑی جا رہی ہے۔ اس کے بعد ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور انہیں مستعفی ہونا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpaانیس جولائی 2010ء کو سکیورٹی کے سخت انتظامات کے تحت کابل میں نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ افغانستان کے غیر مستحکم حالات کے باوجود سن 2014ء کے بعد غیر ملکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpaاٹھارہ ستمبر 2010ء کو افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ کوئی بھی امیدوار واضح برتری حاصل نہ کر سکا اور فیصلہ صدر کرزئی کے حق میں ہوا۔
تصویر: picture alliance/dpaدو مئی 2011ء کو امریکا کی اسپیشل فورسز نے پاکستانی شہر ابیٹ آباد میں حملہ کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ امریکی صدر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس خفیہ آپریشن کی براہ راست نگرانی کرتے رہے۔ ہزاروں امریکیوں نے بن لادن کی ہلاکت کا جشن منایا۔
تصویر: The White House/Pete Souza/Getty Imagesجنگ کے دس برس بعد پانچ دسمبر 2011ء کو ایک دوسری بین لاقوامی بون کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں سن 2024ء تک افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس کے بدلے میں صدر کرزئی نے اصلاحات کرنے، کرپشن کے خاتمے اور جمہوریت کے استحکام جیسے وعدے کیے۔
تصویر: Getty Imagesاٹھارہ جون 2013ء کو صدر حامد کرزئی نے ملک بھر میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دن کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس نے اس اعلان کی خوشیوں ختم کر کے رکھ دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpaافغانستان میں نیٹو کے جنگی مشن کا اختتام ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی برادری مستقبل میں بھی افغانستان کو اربوں ڈالر بطور امداد فراہم کرے گی۔ لیکن افغانستان کے لیے آزادی اور خود مختاری کی طرف جانے والا یہ راستہ کانٹوں سے بھرپور ہے۔
تصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images