پاکستان کی طرف سے امریکا کے لیے سخت پالیسی، نتیجہ کیا ہو گا؟
عبدالستار، اسلام آباد
18 ستمبر 2017
تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان میں امریکا کے حوالے سے سخت گیر موقف رکھنے والوں کے لیے یہ پالیسی خوش آئند ہو سکتی ہے لیکن جن مبصرین کی زمینی حقائق پر نظر ہے، وہ اسے منفی تصور کرتے ہیں۔
اشتہار
انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر امریکا پاکستان پر پابندیاں لگاتا ہے یا اس کے غیر نیٹو اتحادی ہونے والے اسٹیٹس کو کم کرتا ہے تو پھر اسلام آباد بھی سخت پالیسی اپنائے گا، جس میں امریکا سے بتدریج سفارتی تعلقات کی کمی، دہشت گردی سے متعلق مسائل پر باہمی تعاون کو کم کرنا اور امریکا کی افغان اسٹریٹیجی پر عدم تعاون شامل ہے۔
پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکڑ عمار جان نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اگر پاکستان تصادم والی پالیسی اختیار کرتا ہے تو ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے۔ آپ کے ملک میں معیشت کا جنازہ نکلا ہوا ہے۔ برآمدات مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ زراعت خسارے میں ہے۔ قرضوں کا حجم دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ معیشت میں رئیل اسٹیٹ کے علاوہ کوئی نمو نہیں ہو رہی اور وہ بھی اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ ہمیں اب تک قرضے مل رہے ہیں۔ امریکا سے تصادم کی صورت میں ہمارے لیے مشکل ہو گا کہ ہم عالمی بینک، آئی ایم ایف یا ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے قرضے آسانی سے لے سکیں۔ ایسی صورت میں ہم ملک کیسے چلائیں گے۔‘‘
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
عمار جان نے کہا اس تصادم کا نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ پاکستان عالمی طور پر تنہا ہوجائے گا، ’’امریکا نے پہلے ہی ہم پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہے۔ یورپی ممالک بھی ہم سے خوش نہیں ہیں۔ ایران، بھارت اور افغانستان سے بھی ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ چین اور روس نے بھی برکس اعلامیہ میں یہ بتا دیا ہے کہ وہ کس حد تک ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ تو
ایسی صورت میں ہمارے لیے بین الاقوامی دنیا میں صرف تنہائی ہو گی۔ ہمیں دانش مندانہ انداز میں امریکا سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ جذبات کی رو میں بہنا مناسب نہیں۔‘‘
سابق سفیر فوزیہ نسرین کے خیال میں امریکا پاکستان کو دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے لیکن پاکستان اس دباؤ والی صورتِ حال میں نہیں رہنا چاہتا، اسی لیے وہ واشنگٹن کو سخت اشارے بھیج رہا ہے، ’’میرے خیال میں حالیہ ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستانی انتظامیہ میں شدید غصہ پایا جاتا ہے کیونکہ ماضی میں ایسے حملے پاکستان کی رضا مندی سے ہوتے تھے اور ان پر بات چیت بھی ہوتی تھی لیکن اب امریکا نے کہہ دیا ہے کہ وہ کہیں بھی حملے کر سکتا ہے۔ یہ ایسی بات ہے جو کسی صورت بھی اسلام آباد کو قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔ اس کے علاوہ پاکستانی حکومت کو ان باتوں پر بھی تشویش ہے کہ امریکا حساس اداروں کے افراد پر پابندیاں لگانے کی باتیں کر رہا اور پاکستان کے غیر نیٹو اتحادی کا درجہ بھی ختم کرنے کی باتیں کر رہا ہے۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے اسلام آباد سخت ناراض ہے۔‘‘
فوزیہ نسرین نے کہا کہ جو خطے جغرائیائی طور پر اہم ہوتے ہیں، وہاں چھوٹی ریاستیں بھی اپنی خودمختاری کا اظہار کرتی ہیں،’’ایران اور افغانستان بھی کئی معاملات میں امریکی پالیسوں پر ناراضی کا اظہار کرتے ہیں ، تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کرے گا۔ پاکستان کی حالیہ برسوں میں چین اور روس سے قربت بڑھی ہے اور واشنگٹن کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے لیے راستے محدود کر کے خود اپنا نقصان کر رہا ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’امریکا پاکستان کو بالکل تنہا نہیں کرے گا لیکن اسلام آباد پر دباؤ برقرار رکھے گا۔
امریکی صدر کے پاس کتنی طاقت ہوتی ہے؟
عام خیال ہے کہ امریکی صدر عالمی سیاسی سطح پر ایک غالب طاقت کی حیثیت رکھتا ہے تاہم یہ بات اتنی سیدھی اور واضح بھی نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس میں بیٹھے رہنما کے اختیارات محدود ہیں، فیصلوں میں دیگر حلقوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین یہ کہتا ہے
صدر چار سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے لیکن زیادہ سے زیادہ دو آئینی مدتوں کے بعد اُس کا دور ختم ہو جاتا ہے۔ وہ سربراہ مملکت اور سربراہِ حکومت دونوں حیثیتوں میں کاروبارِ مملکت چلاتا ہے۔ کانگریس سے منظور شُدہ قوانین کو عملی شکل دینا اُس کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ صدر کی انتظامیہ تقریباً چار ملین کارکنوں پر مشتمل ہے۔ صدر دیگر ملکوں کے سفیروں کی اسناد قبول کرتا ہے اور یوں اُن ملکوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر کی سرگرمیوں پر کنٹرول
امریکا میں تین بڑے ادارے ایک دوسرے کے فیصلوں میں شرکت کا حق رکھتے ہیں اور یوں ایک دوسرے کے اختیارات کو محدود بناتے ہیں۔ صدر لوگوں کے لیے معافی کا اعلان کر سکتا ہے اور وفاقی جج نامزد کر سکتا ہے لیکن محض سینیٹ کی رضامندی سے۔ سینیٹ ہی کی رضامندی کے ساتھ صدر اپنے وزیر اور سفیر بھی مقرر کر سکتا ہے۔ مقننہ اس طریقے سے بھی انتظامیہ کو کنٹرول کر سکتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’اسٹیٹ آف دی یونین‘ کی طاقت
صدر کو ملکی حالات کے بارے میں کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے اور یہ کام وہ اپنے ’اسٹیٹ آف دی یونین‘ خطاب میں انجام دیتا ہے۔ صدر کانگریس میں قوانین کے مسودے تو پیش نہیں کر سکتا تاہم وہ اپنے خطاب میں موضوعات کی نشاندہی ضرور کر سکتا ہے۔ اس طرح وہ رائے عامہ کو ساتھ ملاتے ہوئے کانگریس کو دباؤ میں لا سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ کرنا صدر کے دائرہٴ اختیار میں نہیں ہوتا۔
تصویر: Klaus Aßmann
صدر چاہے تو سیدھے سیدھے ’نہیں‘ کہہ دے
صدر کسی قانونی مسودے پر دستخط کیے بغیر اُسے کانگریس کو واپس بھیجتے ہوئے اُسے ویٹو کر سکتا ہے۔ کانگریس اس ویٹو کو اپنے دونوں ایوانوں میں محض دو تہائی اکثریت ہی سے غیر مؤثر بنا سکتی ہے۔ سینیٹ کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق امریکی تاریخ میں پندرہ سو مرتبہ صدر نے ویٹو کا اختیار استعمال کیا تاہم اس ویٹو کو محض ایک سو گیارہ مرتبہ رَد کیا گیا۔ یہ شرح سات فیصد بنتی ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
اختیارات کی تشریح میں ابہام
آئین اور اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلوں سے یہ بات پوری طرح واضح نہیں کہ صدر دراصل کتنی طاقت کا مالک ہوتا ہے۔ صدر ایک اور طرح کا ویٹو بھی استعمال کر سکتا ہے اور وہ یوں کہ وہ کانگریس کے مسودہٴ قانون کو منظور کیے بغیر اُسے بس اپنے پاس رکھ کر بھول جائے۔ تب اُس قانون کا اطلاق ہی نہیں ہو پاتا اور نہ ہی کانگریس ایسے ویٹو کو رَد کر سکتی ہے۔ یہ سیاسی چال امریکی تاریخ میں ایک ہزار سے زیادہ مرتبہ استعمال ہوئی۔
تصویر: Klaus Aßmann
ہدایات، جو قانون کے مترادف ہوتی ہیں
صدر حکومتی ارکان کو ہدایات دے سکتا ہے کہ اُنہیں اپنے فرائض کیسے انجام دینا ہیں۔ یہ ’ایگزیکٹیو آرڈرز‘ قانون کا درجہ رکھتے ہیں اور انہیں کسی دوسرے ادارے کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود صدر اپنی مرضی نہیں چلا سکتا۔ ایسی ہدایات کو یا تو عدالتیں منسوخ کر سکتی ہیں یا پھر کانگریس بھی ان ہدایات کے خلاف کوئی نیا قانون منظور کر سکتی ہے۔ اور : اگلا صدر ان ہدایات کو بیک جنبشِ قلم ختم بھی کر سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کے ساتھ داؤ
صدر دوسری حکومتوں کے ساتھ مختلف معاہدے کر سکتا ہے، جنہیں سینیٹ کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرنا ہوتا ہے۔ منظوری کے اِس عمل کی زَد میں آنے سے بچنے کے لیے صدر معاہدوں کی بجائے ’ایگزیکٹیو ایگری مینٹس‘ یعنی ’حکومتی سمجھوتوں‘ کا راستہ اختیار کر سکتا ہے، جن کے لیے کانگریس کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ یہ سمجھوتے اُس وقت تک لاگو رہتے ہیں، جب تک کہ کانگریس اُن کے خلاف اعتراض نہیں کرتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
جب صدر کو ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے
صدر امریکی افواج کا کمانڈر اِن چیف ضرور ہے لیکن کسی جنگ کا اعلان کرنا کانگریس کے دائرہٴ اختیار میں آتا ہے۔ یہ بات غیر واضح ہے کہ صدر کس حد تک کانگریس کی منظوری کے بغیر امریکی دستوں کو کسی مسلح تنازعے میں شریک کر سکتا ہے۔ ویت نام جنگ میں شمولیت کے صدارتی فیصلے کے بعد بھی کانگریس نے قانون سازی کی تھی۔ مطلب یہ کہ صدر اختیارات اُس وقت تک ہی اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے، جب تک کہ کانگریس حرکت میں نہیں آتی۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی اور فیصلہ کن کنٹرول
صدر اختیارات کا ناجائز استعمال کرے یا اُس سے کوئی جرم سر زَد ہو جائے تو ایوانِ نمائندگان اُس کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ اب تک اس طریقہٴ کار کا استعمال دو ہی مرتبہ ہوا ہے اور دونوں مرتبہ ناکام ہوا ہے۔ لیکن کانگریس کے پاس بجٹ کے حق کی صورت میں ایک اور بھی زیادہ طاقتور ہتھیار موجود ہے۔ کانگریس ہی بجٹ منظور کرتی ہے اور جب چاہے، صدر کو مطلوبہ رقوم کی فراہمی کا سلسلہ روک سکتی ہے۔