پاکستان کی عدم شرکت افسوسناک رہی، ہلیری کلنٹن
6 دسمبر 2011جرمنی کے شہر بون میں پیر کو افغانستان کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس کے موقع پر نیوزکانفرنس سے خطاب میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا: ’’میرے خیال میں یہ بات بدقسمتی رہی کہ انہوں نے شرکت نہیں کی۔ اچھا ہوتا اگر پاکستانی اس میں شامل ہوتے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’ہمیں ان کے فیصلے پر افسوس ہے، کیونکہ کانفرنس سلامتی اور استحکام کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی تھی، جو پاکستان اور افغانستان کے لیے اہم ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور امریکہ کو بدستور اس بات کا یقین ہے۔‘‘
قبل ازیں پیر ہی کو پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے خبر رساں ادارے اے پی سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی چاہتا ہے۔
ہلیری کلنٹن نے یوسف رضا گیلانی کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’گیلانی کے بیانات بہت حوصلہ افزاء ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ امریکہ اور پاکستان باہمی مفادات اور تشویش سے متعلق متعدد شعبوں میں تعاون جاری رکھیں گے، جن میں سے دہشت گردی کے خلاف ہماری مشترکہ لڑائی سب سے اہم ہے۔‘‘
دوسری جانب پاکستان کے لیے امریکی پالیسی میں مدد دینے والے ایک ماہر اور سی آئی اے کے سابق اہلکار بروس ریڈل نے کہا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا ہو گی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ریڈل کا کہنا ہے کہ ان کی قیادت میں باراک اوباما کی جانب سے منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے لیے جو پالیسی بنائی گئی تھی، وہ اس وقت درست تھی۔ انہوں نے کہا: ’’لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں، شراکت کی یہ پالیسی تبدیل کرنے کا وقت ہے۔‘‘
بروس ریڈل اس وقت بروکنگز انسٹی ٹیوشن تھنک ٹینک میں سینئر فیلو ہیں۔ انہوں نے پالیسی میں تبدیلی سے مراد یہ بتائی کہ پاکستان کو بدستور شریک رکھا جائے، جس کے نتیجے میں سویلین جمہوریت کے قیام کی کوشش کی جائے، پاکستان کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستانی فوج کے اختیارات کو محدود بنانے کی کوشش بھی کی جائے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق