1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی قومی اسمبلی آج تحلیل کردی جائے گی

9 اگست 2023

آج قومی اسمبلی تحلیل ہونے والی ہے اور وزیر اعظم ایک نگراں سیٹ اپ کی تشکیل کے حوالے سے مشاورت کر رہے ہیں۔ سابق بین الاقوامی کرکٹ اسٹار عمران خان کے گزشتہ سال اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے پاکستان سیاسی بحران کا شکار ہے۔

Pakistan Islamabad Parlamentsgebäude
تصویر: FAROOQ NAEEM/AFP

وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے سلسلے میں صدر پاکستان عارف علوی کو سمری بھیجنے کے بعد بدھ 9 اگست کو درمیانی شب سے پارلیمنٹ تحلیل کردی جائے گی۔ جس کے بعد ملک میں انتخابات کی نگرانی کا کام ایک عبوری سیٹ اپ کے حوالے کردیا جائے گا۔ لیکن اس میں ملک کے مقبول ترین سیاست داں عمران خان شامل نہیں ہوں گے۔

عمران خان کو بدعنوانی کے الزامات میں ہفتے کے آخر میں جیل بھیج دیا گیا، جب کہ الیکشن کمیشن نے سابق وزیر اعظم کی پانچ سال کے لیے نااہلی کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا ہے۔

عبوری انتظامیہ کیا کرے گی؟

قانون کے مطابق پارلیمان کی تحلیل کے 90 دنوں کے اندر انتخابات کرائے جانے چاہئیں لیکن رخصت پذیر حکومت نے پہلے ہی خبر دار کیا تھا کہ ان میں تاخیر ہونے کا خدشہ ہے۔

پاکستان کی باہم مخالف متعدد جماعتوں نے عمران خان کو اقتدار سے باہر کرنے کے لیے اتحاد کیا تھا لیکن وہ دنیا کی پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں پچھلے اٹھارہ ماہ کے دوران بہت کم عوامی حمایت حاصل کرسکی ہیں۔

پاکستان آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے پر مجبور

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے نئے بیل آؤٹ پیکج کے باوجود معیشت بدحالی کا شکار ہے۔ غیر ملکی قرضوں میں اضافہ، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور وسیع پیمانے پر بے روزگاری، نیزخام مال خریدنے کے لیے غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی کے سبب کارخانے سست پڑے ہوئے ہیں۔

جمہوریت میں ’عسکری نرسری کے سياسی پھول پودے‘

 پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجس لیٹیو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرینسی نامی تھنک ٹینک کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا تھا، "معاشی فیصلے ہمیشہ سخت اور اکثر غیر مقبول ہوتے ہیں، جس کے لیے حکومت کو ان پر موثر طریقے سے عمل درآمد کرنے کے لیے طویل مدت کی ضرورت ہوتی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "یہ انتخاب اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں پانچ سال کے لیے ایک نئی حکومت آئے گی، جسے معاشی بحالی کے لیے ضروری فیصلے کرنے کا اختیار دیا جانا چاہئے۔"

قانون کے مطابق پارلیمان کی تحلیل کے 90 دنوں کے اندر انتخابات کرائے جانے چاہئیں لیکن رخصت پذیر حکومت نے پہلے ہی خبر دار کیا تھا کہ ان میں تاخیر ہونے کا خدشہ ہےتصویر: National Assembly of Pakistan/AP/picture alliance

الیکشن کی تاریخ پر سوالیہ نشان

کئی مہینوں سے یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ انتخابات میں تاخیر ہوسکتی ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ملک کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہے، جسے متعدد سکیورٹی، اقتصادی اور سیاسی بحرانوں کا سامنا ہے۔

مئی میں کی گئی تازہ ترین مردم شماری کے اعدادوشمار اواخر ہفتہ کو شائع ہوئے اور حکومت کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو حلقوں کی حد بندیوں کی ازسر نو ترتیب دینے کے لیے وقت درکار ہے، حالانکہ اس سے متعدد سیاسی جماعتوں کے لیے ایک پریشان کن صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔

پاکستان آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے پر مجبور

ولسن سینٹر میں ساوتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کا کہنا تھا کہ الیکشن میں تاخیر سے حکمراں اہم اتحادی شراکت داروں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف پارٹی کے چیلنجز سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے زیادہ وقت مل سکتا ہے۔

انہوں نے تاہم کہا کہ،"لیکن درحقیقت انتخابات میں تاخیر سے عوام کا غصہ مزید بڑھ سکتا ہے اور ایک ایسی اپوزیشن کو تقویت پہنچ سکتی ہے جس کے خلاف مہینوں سے جاری کریک ڈاون کی وجہ سے پہلے ہی عوامی ہمدردی حاصل ہے۔"

الیکشن کمیشن نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو پانچ سال کے لیے نااہلی کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا ہے۔تصویر: K.M. Chaudary/AP/picture alliance

عبوری انتظامیہ کے لیے کام کرنا آسان نہیں

پاکستان میں کسی بھی انتخابات کے پس پشت فوج کا ہاتھ ہوتا ہے، جس نے 1947میں ایک نیا ملک وجود میں آنے کے بعد سے کم از کم تین مرتبہ کامیاب بغاوتیں کی ہیں۔

عمران خان کو بھی سن 2018 میں اقتدار میں آنے پر حقیقی وسیع حمایت حاصل تھی لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا صرف ملک کے طاقت ور جرنیلوں کی آشیرواد سے تھا۔ حالانکہ بعد میں انہوں نے فوج کے خلاف مزاحمت کی ایک پرخطر مہم چلائی اور فوج پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگایا۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ نومبر میں ان پر ناکام قاتلانہ حملے کے پیچھے ایک انٹیلیجنس افسر کا ہاتھ تھا۔

نگران حکومت: گیم سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے؟

عمران خان نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر ریلیاں نکالی اور اپنے اراکین پارلیمان سے استعفے دلوا کر حکومت پر قبل از وقت انتخابات کرانے کے لیے دباو ڈالا لیکن ان کے یہ تمام حربے ناکام رہے۔

کوگل مین کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت کو آنے والے مہینوں میں ایک مشکل کام کا سامنا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا "بالآخر عبوری انتظامیہ کے لیے سب سے بڑ اچیلنج یہ ہوگا کہ وہ تفریق سے بالا ترہواور سیاست دانوں اور فوج کے درمیان ہونے والی سیاسی لڑائیوں میں نہ گھسیٹی جائے۔"

انہوں نے کہا، "یہ دراصل ایک ہائپر پارٹیزن اور ہائپر پولرائزڈ وقت ہے... اور ایک غیر سیاسی نگران کے لیے اس ماحول میں کام کرنا آسان نہیں ہوگا۔"

ج ا/ص ز (اے ایف پی)

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں