1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے خاتمے کے قریب

12 اکتوبر 2023

حکومت پاکستان نے قرض کے بوجھ تلے دبے قومی ایئرلائن، پی آئی اے، کی نجکاری کے منصوبوں کا اعلان کر دیا ہے۔ ملازمین کو اپنی ملازمتوں اور پنشن کے متعلق تشویش لاحق ہے اور وہ حکومت کے منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔

Pakistani airlines I PIA
تصویر: Nicolas Economou/NurPhoto/picture alliance

پاکستان کی قومی فضائی کمپنی، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) مالی لحاظ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، جس کی وجہ سے حکومت اسے نجی ہاتھوں میں سونپنے اور ایئرپورٹ آپریشنز کی آوٹ سورسنگ کا منصوبہ بنانے پر مجبور ہو گئی ہے۔

پاکستان کے موجودہ اقتصادی مسائل کے درمیان، حکومت کا کہنا ہے کہ وہ خسارے میں چلنے والے اداروں کو سبسڈی نہیں دے سکتی۔ یہ اقدام ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اپنے مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے جون میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے تین ارب ڈالرکا قرض حاصل کرنے کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایئر لائن ان کمپنیوں کی فہرست میں شامل ہے جن کی نجکاری پر غور کیا جارہا ہے اور اس کی نجکاری جلد ہی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ قومی ایئرلائن کو اس وقت اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔

ملازمین پی آئی اے پر سفر کرنے سے گریز کریں، اقوام متحدہ

پی آئی اے کے ملازمین اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ اس وقت اس ایئرلائن میں تقریباً 11 ہزار ملازمین ہیں۔

پی آئی اے سے گزشتہ سال ریٹائرڈ ہونے والی ایک ملازمہ روبینہ خان نے ڈی ڈبلیو سے با ت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں تشویش ہے کہ کہیں ان کی پنشن نہ رک جائے اور دیگر ملازمین، جنہیں ملازمت سے فارغ کیا جاسکتا ہے، ان کے واجبات بھی ادا نہیں کیے جائیں گے۔

ایک دیگر سبکدوش ملازم جاوید اختر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں لاکھوں لوگ پہلے ہی بے روزگار ہیں اور پی آئی اے کی نجکاری سے مزید افراد کی ملازمت چھن جائے گی۔

انہوں نے کہا، "فطری طورپر ملازمین اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ وہ سخت معاشی حالات کے درمیان ملازمت کے بغیر اپنے کنبے کا پیٹ کیسے پالیں گے۔"

ایئر لائن کے انجینیئرنگ ڈپارٹمنٹ کے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی آئی اے کے ایگزیکیوٹیو کو بھاری بھرکم تنخواہیں ملتی تھیں اور انہیں "بڑی مراعات اور دیگر نوازشات سے" بھی نوازا جاتا تھا اور اب دیگر ملازمین کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

پی آئی اے کے اس وقت 30 میں سے صرف 19طیارے آپریشنل ہیںتصویر: Photoshot/picture alliance

پی آئی اے کا عروج و زوال

نجی سرمایہ کاروں کے ذریعہ اورینٹ ایئر کے نام سے شروع کی گئی ایئرلائن کو سن 1950کی دہائی میں حکومتی کنٹرول میں لے لیا گیا اور اس کا نام پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) رکھا گیا۔

دھیرے دھیرے یہ اس علاقے کی بہترین ایئرلائنز میں سے ایک بن گئی لیکن آج یہ سنگین بحران سے دوچار ہے۔ کمپنی کو کئی سالوں سے مالی مسائل کا سامنا ہے اور متعدد ملازمین کے سبکدوش ہوجانے کے باوجود سن 2017 سے اس میں خاطر خواہ بھرتیاں نہیں کی گئیں۔ اس وقت اس کے 30 میں سے صرف 19طیارے آپریشنل ہیں۔

کیا بھارت زائرین کے لیے پی آئی اے کی پرواز کی اجازت دے گا؟ 

حکومتی تیل کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل نے بھی واجبات کی عدم ادائیگی کے سبب قومی ایئر لائن کو تیل کی سپلائی بند کردینے کی دھمکی دی ہے۔ ایئرلائن کو واجبات کی عدم ادائیگی اور اس کے طیاروں کو ضبط کرنے کی دھمکی کے معاملے پر ملیشیا میں قانونی چارہ جوئی بھی سامنا کرنا پڑا۔

جعلی پائلٹ لائسنس اسکینڈل کی وجہ سے یورپ اور برطانیہ کے لیے پی آئی اے کی پروازیں سن 2020 سے معطل ہیں۔

تحقیقات میں شامل کیا جائے، پاکستانی پائلٹس کا مطالبہ

سبکدوش ملازمہ روبینہ خان کا خیال ہے کہ ایگزیکٹیوکی غلط پالیسیاں ایئر لائن کی بتدریج تباہی کی ذمہ دار ہیں۔ اس میں مہنگے نرخوں پر ہوائی جہاز کو پٹے پر لینا بھی شامل ہے۔

ایک ٹریڈ یونین لیڈر سہیل مختار اس حوالے سے پی آئی اے کے لیے سری لنکا سے بہت زیادہ قیمت پر دو طیارے حاصل کرنے کی مثال دیتے ہیں۔

سہیل مختار نے ڈی ڈبلیوکو بتایا کہ ایک نجی ایئر لائن نے ایک طیارہ 4500 ڈالر فی گھنٹہ کی شرح سے حاصل کیا لیکن پی آئی اے نے وہی طیارہ 7500ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے حاصل کیا۔ "ہمیں اس شرح پر دو طیارے ملے جس کی وجہ سے تقریباً 17سے 18ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔"

انہوں نے مزید بتایا کہ پی آئی اے نے انتہائی مہنگے انجن بھی خریدے، جن میں بعد میں خرابیاں بھی پیدا ہوگئیں۔

روبینہ خان کا کہنا تھا کہ کیٹرنگ اور دیکھ بھال کے لیے بیرونی ٹھیکیداروں کی خدمات حاصل کرنے سے بھی کافی نقصان ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ، "پی آئی اے کے ذمہ داروں نے اس قومی ایئرلائنز کی مالیات کو نچوڑ کر رکھ دیا۔"

انہوں نے مزید کہا کہ ایگزیکیوٹیوز کی بھاری بھرکم تنخواہیں، غیر ذمہ دارانہ رویہ اور دیگر سرکاری محکموں کی جانب سے پی آئی اے کے واجبات کی عدم ادائیگی نے بھی قومی ایئرلائن کی مالی پریشانیوں میں اضافہ کیا۔

لاہور میں مقیم، ایئرلائنز امور کے ماہر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ سیاسی روابط رکھنے والے نجی ایئرلائنز کے مالکان، جو اپنی ایئر لائنز شروع کرنا چاہتے تھے، کو پی آئی اے میں ایگزیکیوٹیو بنادیا گیا۔ "جس کے نتیجے میں پی آئی اے کا زوال شروع ہو گیا جب کہ ان کی ذاتی ایئرلائنز منافع بخش بنتی گئیں۔"

جعلی پائلٹ لائسنس اسکینڈل کی وجہ سے یورپ اور برطانیہ کے لیے پی آئی اے کی پروازیں سن 2020 سے معطل ہیںتصویر: KARIM SAHIB/AFP/Getty Images

پی آئی اے کے ذمہ داروں کا کیا کہنا ہے؟

اسلام آباد میں مقیم ماہر معاشیات شاہد محمود کا کہنا ہے کہ فوجی اور سویلین دونوں ہی حکومتیں، پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے سرکاری اداروں کو من پسند بیوروکریٹس، پارٹی ممبران اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ "اس کے نتیجے میں وہ معیشت کا خون کر رہے ہیں۔ اس لیے ان اداروں کی نجکاری کی جانی چاہئے۔"

پاکستان کے وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد تاہم اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ حکومت کا فیصلہ مبینہ مفاد پرست افراد کے مفادات کو فائدہ پہنچانا ہے۔

فواد حسن نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ نجکاری کا عمل سختی کے ساتھ قانون کے مطابق کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر قدم پر مکمل شفافیت برتی جارہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قانونی ڈھانچے اور اثاثوں کی قیمت کا تعین دنیا کے سرفہرست سرمایہ کاری بینک کررہے ہیں۔

فواد حسن کا کہنا تھا کہ "ویلوویشن ایکسپرٹ حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ قیمتوں کا تعین کرنے کے بعد بولی لگانے کا عمل ہر ایک کے لیے کھلا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "موجودہ معاشی دباو میں حکومت کے لیے اوسطاً دس سے بارہ طیاروں کو آپریشنز پر ہر سال تقریباً 150ارب روپے کے بھاری خسارے کو پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔"

تاہم ٹریڈ یونین لیڈر سہیل مختار کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے ملازمین نجکاری کی مزاحمت جاری رکھیں گے اور دیگر افراد کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔

بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی کارکن عالیہ بخشال نے بتایا کہ ان کی پیپلز ورکرز پارٹی پی آئی اے کے ملازمین کے رابطے میں ہے اور وہ پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف مزاحمت کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل پر کام کررہے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،"حکومت پی آئی اے کے ملازمین کو بھوک اور بھکمری کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے اور اس اقدام کی پوری طاقت سے مخالفت کریں گے۔"

ایس خان، اسلام آباد/ ج ا/ ص ز


 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں