پاکستانی قوم پرست جماعتوں کو ملک کے کچھ علاقوں میں تو پذیرائی حاصل ہے جبکہ کچھ علاقوں میں یہ برسوں سیاست کرنے کے باوجود ایوان اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
تصویر: A. G. Kakar/DW
اشتہار
بہت سے حلقے اس بات پر بھی بحث کر رہے ہیں کہ پاکستان میں قوم پرست جماعتوں کا انتخابی سیاست سے کیا تعلق ہے؟ ان کے چیلنجز کیا ہیں؟ کچھ قوم پرست جماعتیں اسٹریٹ پاور رکھنے کے باوجود انتخابات میں بھرپور حصہ کیوں نہیں لیتیں یا اگر حصہ لیتی ہیں تو وہ کامیاب کیوں نہیں ہوتی؟
پاکستان میں مہاجر قومی موومنٹ، جیے سندھ محاذ، عوامی تحریک، سندھ ترقی پسند پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، پنجاب نیشنل پارٹی اور سرائیکی نیشنل پارٹی سمیت کئی قوم پرست جماعتیں موجود ہیں لیکن ان میں سے بہت ساری جماعتوں کی انتخابی سیاست میں کوئی مضبوط موجودگی نظر نہیں آتی جب کہ کچھ جماعتوں کی موجودگی بالکل ہی نہیں ہے۔
سندھ کی قوم پرست جماعتیں
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں سندھی قوم پرستی سب سے زیادہ مضبوط ہے، جہاں سندھی قوم کے نام پر سندھی قوم پرست وفاقی پالیسیوں پہ بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے کالا باغ ڈیم جیسے کئی میگا پراجیکٹس، قوم پرستوں کی مخالفت کی وجہ سے شروع نہیں ہو سکے یا تکمیل کو نہیں پہنچے۔
ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ قوم پرستوں کا اس صوبے اور بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں شروع سے ہی بہت اثر و رسوخ رہا ہے۔تصویر: Farid Ullah Khan/DW
سندھ کی سیاست پہ گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار شکیل سومرو نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سندھ میں قوم پرستی کے سب سے بڑے علمبردار جی ایم سید تھے جنہوں نے 1970ء کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن انہیں شکست ہوئی۔ اس کے بعد ان کی جماعت تقریباﹰ انتخابی سیاست سے دور ہو گئی اور وہ علیحدگی پسندی کی طرف چلی گئی۔ ان کی موت کے بعد جماعت میں کئی دھڑے بن گئے اور وہ سب انتخابی سیاست سے دور ہیں۔‘‘
شکیل سومرو کے مطابق عوامی تحریک، سندھ ترقی پسند پارٹی اور کچھ اور جماعتیں انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہیں لیکن انہیں بھی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ مزید یہ کہ جی ایم سید کے گھرانے کے کچھ افراد نے انفرادی طور پر یا چھوٹی موٹی پارٹیاں بنا کر انتخابات میں حصہ لیا اور ان کو کچھ کامیابی بھی ہوئی، ''لیکن پارٹی بحیثیت مجموعی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔‘‘
انتخابی سیاست اور پختون بلیٹ
صوبہ خیبر پختون خوامیں، جسے اٹھارویں ترمیم سے پہلے شمال مغربی صوبہ کہا جاتا تھا، قوم پرستانہ سیاست کئی عشروں تک حاوی رہی۔ تاہم گزشتہ 10 برسوں میں وہاں پر پاکستان تحریک انصاف ایک بہت بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اور اسے دو بار منتخب کیا گیا۔
خیبر پختونخوا میں گزشتہ 10 برسوں میں وہاں پر پاکستان تحریک انصاف ایک بہت بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اور اسے دو بار منتخب کیا گیا۔تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images
پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ قوم پرستوں کا اس صوبے اور بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں شروع سے ہی بہت اثر و رسوخ رہا ہے: '' تخلیق پاکستان کے وقت خدائی خدمت گار کانگریس کے اتحادی تھے اور صوبے میں کانگریس کی حکومت تھی۔ بعد میں اس حکومت کے خاتمے اور بھابڑہ میں پختون سیاسی کارکنان کے قتل عام نے قوم پرستانہ جذبات کو مزید مضبوط کیا۔‘‘
ڈاکٹر سرفراز خان کے مطابق بلوچستان کے پختون بیلٹ میں صمد خان اچکزئی، محمود خان اچکزئی اور دوسرے پختون قوم پرستوں کو بہت اثر ورسوخ رہا اور انہوں نے انتخابی سیاست میں کامیابی بھی حاصل کی: ''ایوب خان کے مقابلے میں ولی خان اور دوسرے قوم پرستوں نے فاطمہ جناح کی بنیادی جمہوریتوں والے انتخابات میں حمایت کی اور 70 کے الیکشن میں نیشنل عوامی پارٹی نے صوبے میں اچھی خاصی نشستیں حاصل کیں۔‘‘
اشتہار
بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست
بلوچستان شاید وہ واحد صوبہ ہے جہاں پر قوم پرستانہ سیاست روز اول سے ہی بہت طاقتور ہے اور وہاں وفاق کی سیاست کرنے والی جماعتوں کو بہت کم پذیرائی حاصل ہوئی۔ بلوچستان حکومت کے سابق مشیر برائے منصوبہ بندی اسحاق بلوچ کا کہنا ہے کہ آج بھی صوبے میں اگر منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں تو نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی سب سے طاقتور جماعتیں بن کر ابھریں گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''قوم پرستانہ تحریک مکران ڈویژن میں بہت طاقت ور رہی ہے جہاں پر کوئی سرداری نظام نہیں ہے جبکہ جلاوان اور سراوان کے مختلف علاقوں میں سرداری نظام طاقتور ہے۔ تاہم ابھرتی ہوئی قوم پرست تحریکوں نے ان خطوں میں بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔‘‘
’’پیپلز پارٹی سندھ کے تمام قومی سوالات پر قوم پرستانہ لائن لیتی ہے، جس کی وجہ سے انتخابی سیاست میں قوم پرستوں کی گنجائش نہیں بن پاتی۔‘‘تصویر: Aamir Qureshi/AFP
ڈاکٹر اسحاق بلوچ کے مطابق عطا اللہ مینگل، اختر مینگل، ڈاکٹر مالک اور نواب اکبر بگٹی جو مختلف مواقع پہ صوبے کے وزیراعلیٰ بنے ان سب کا تعلق کسی نہ کسی طرح قوم پرستانہ سیاست سے تھا۔
ناکامی کے اسباب
شکیل سومرو کا کہنا ہے کہ سندھ کی انتخابی سیاست میں قوم پرستوں کو پذیرائی اس لیے نہیں مل پائی کیونکہ پیپلز پارٹی نے ان کے سارے نعروں کو اپنا لیا ہے: ''کالا باغ ڈیم ہو یا سندھ کے پانی کا مسئلہ، پیپلز پارٹی سندھ کے تمام قومی سوالات پر قوم پرستانہ لائن لیتی ہے، جس کی وجہ سے انتخابی سیاست میں قوم پرستوں کی گنجائش نہیں بن پاتی۔‘‘ شکیل سومرو کے مطابق اس کے علاوہ زیادہ تر قوم پرست جماعتیں مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہیں، ''اور ان کے پاس وڈیروں کی طرح کروڑوں یا اربوں روپے نہیں ہیں جو وہ انتخابی سیاست پر خرچ کریں۔ اس کے علاوہ وہ تھانہ اور کچہری کی سیاست بھی نہیں کر سکتے۔‘‘
ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ موروثی سیاست، مذہبی جماعتوں کا ابھار اور اسٹیبلشمنٹ کی قوم پرست مخالف پالیسیوں نے قوم پرستوں کی انتخابی سیاست کو بہت نقصان پہنچایا ہے: ''انتخابی سیاست میں جی ایچ کیو یہ فیصلہ کرتا ہے کس کو اقتدار میں لانا ہے اور کسے روکنا ہے۔ اس کی وجہ سے قوم پرستوں کو انتخابی سیاست میں بہت مشکلات ہوئی ہیں۔‘‘
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
بلوچ قوم پرستوں جماعتوں کے لیے چیلنج
اسحاق بلوچ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کا ابھار قوم پرست تحریکوں کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے: ''انتخابی سیاست پر تو شاید وہ اتنے اثر انداز نہ ہوں کیونکہ وہ لوگ انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیتے۔ تاہم مزاحمتی سیاست کی وجہ سے بلوچستان میں انتخابات کے دوران نوجوانوں کے ووٹوں کا ٹرن آؤٹ کم ہوا ہے، جو یقینا قوم پرستانہ انتخابی سیاست کے لیے ایک چیلنج ہے۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان میں پنجاب نیشنل پارٹی اور سرائیکی نیشنل پارٹی سمیت دوسری کئی قوم پرست جماعتیں بھی سیاست میں سرگرم ہیں لیکن ان کی انتخابی سیاست میں کوئی خاص موجودگی نظر نہیں آتی۔