پاکستان کی مختلف رویت ہلال کمیٹیاں
16 جولائی 2015مختلف اضلاع کی یہ کمیٹیاں اپنی شہادتیں پشاور میں مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی سربراہی میں مسجد قاسم علی خان میں قائم نجی رویت ہلال کمیٹی کو ارسال کریں گی۔ گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے لیے ان کا اجلاس رات گئے تک جاری رہتا ہے اور یہ لوگ تسلی کرنے کے بعد ہی روزہ رکھنے یا عید کا اعلان کرتے ہیں۔ پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے زیادہ تر علاقوں میں اسی نجی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان پر رمضان کا پہلا روزہ رکھا گیا تھا اور صوبے کے بعض اضلاع، قبائلی علاقوں اور یہاں مقیم افغان مہاجرین اسی کمیٹی کے اعلان پر روزہ رکھتے ہیں اور عید بھی مناتے ہیں۔
صوبائی حکومت کی ایک دن عید منانے میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب اس سلسلے میں صوبائی وزیر مذہبی اُمور حبیب الرحمان سے ڈوئچے ویلے نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا ’’ہم بے بس ہیں قانون نہ ہونے کی وجہ سے حکومت ایسے لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی۔کل ہم نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس کے لیے قانون سازی کریں گے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ یہ وفاق کا مسئلہ ہے تو اس بارے میں کوئی قدم اٹھانے سے قبل وفاقی حکومت سے رابطہ بھی کیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا ’’جب ہم نے وفاق سے بات کی تو ان کا مشورہ تھا کہ اگر چاروں صوبے متفقہ قرارداد کے ذریعے وفاقی حکومت سے اس بارے میں یکساں قانون بنانے کا کہیں تو ایسا ہوسکتا اور اب ہم عنقریب ایسا ہی کریں گے۔‘‘ ان کے بقول وہ ساتھ میں ایسے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سزا بھی تجویز کریں گے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ مقامی رویت ہلال کمیٹیوں کے ارکان کی شکایت ہے کہ وفاقی رویت ہلال کمیٹی میں ان کی نمائندگی نہیں اور ان کی شہادتیں بھی قبول نہیں کی جاتیں تو حبیب الرحمان کا کہنا تھا کہ’’ اس مرتبہ بھی دو لوگوں کو اجلاس میں شرکت کے لیے کراچی بھیجا گیا تھا اور جہاں تک شہادتوں کا تعلق ہے تو رات بارہ بجے تک تو یہ لوگ بات کرنا گوارا نہیں کرتے‘‘
اس سلسلے میں جب ڈوئچے ویلے نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے رکن پروفیسر ڈاکٹر اسد غفور سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا ’’ افغانستان سے لیکر یورپی ممالک تک سعودی عرب کے ساتھ عید اور رمضان سمیت دیگر تہوار مناتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکومت ﺍیک دن روزہ رکھنے اور ایک دن عید منانے کو یقینی بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا ایک دن روزہ رکھنے اور عید منانے سے مسلمانوں میں اتحاد، اتفاق، پیار و محبت بڑھتی ہے۔ اس کے لیے قانون سازی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
خیبر پختونخوا میں اس وقت تین ملین سے زیادہ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں جبکہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کر کے صوبے کے مختلف علاقوں میں آباد ہونے والے قبائلیوں کی تعداد بھی ڈھائی ملین سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ یہ لوگ سعودی عرب کے ساتھ روزے رکھتے ہیں اور عید بھی انہی کے ساتھ مناتے ہیں۔ اگر وفاق اور صوبوں میں ایک دن عید کا اعلان ہو بھی جائے تو بھی یہ لوگ سعودی عرب کے ساتھ عید منانے کو فوقیت دیں گے اور ان پر کسی قسم کی پابندی بھی نہیں لگائی جاسکتی۔ اسی طرح قانون نہ ہونے کی وجہ سے نجی رویت ہلال کمیٹی پر بھی ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا، جو سالہا سال سے از خود شہادتیں اکھٹا کر کے رمضان اور عید کا ایک روز قبل اعلان کرتی ہیں۔