پاکستان میں ماہرین نے معاشی شرح نمو میں کمی کے بارے میں رپورٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو ملک سیاسی و سماجی انتشار کا شکار ہو سکتا ہے۔
اشتہار
پاکستان میں معاشی نمو کی رفتار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سن دو ہزار بیس میں یہ شرح دو اعشاریہ چار فیصد رہ جائے گی۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا، سرمایہ کاری میں کمی آئے گی، مہنگائی بڑھے گی اور کئی سماجی مسائل جنم لیں گے۔
پاکستان کی معیشیت کو تجارتی خسارے، قرضوں کے بوجھ سمیت کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ معاشی نمو میں کمی سے معیشت کو مزید دھچکا لگے گا۔
پاکستان میں عالمی مالیاتی اداروں کی بڑی ناقد اور ماہر معیشت ڈاکڑ عذرا طلعت سعید کا کہنا ہے اقتصادی نمو میں کمی سے صنعتی سرگرمیاں بہت سست ہو جائیں گی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی صنعتی پیداوار کم ہو گی اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس سے صرف بے ورزگاری ہی نہیں بڑھے گی بلکہ بھوک اور غربت میں بھی اضافہ ہوگا۔ حکومت معیشت کو بہتر کرنے کے نام پر نجکاری کرے گی۔ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور دیگر اداروں کی نجکاری کی جائے گی، جس سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور سماجی بے چینی بڑھے گی۔‘‘
بیرون ملک آباد شہریوں کی وطن بھیجی گئی رقوم، ٹاپ ٹین ممالک
بیرونی ممالک سے رقوم کی ترسیل کئی ترقی پذیر ممالک کی معیشت میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ 2018 میں بیرون ملک آباد شہریوں کی اپنے وطن بھیجی گئی رقوم ترقی پذیر ممالک کو بھیجی گئی کل رقوم کا نصف سے بھی زائد بنتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
1۔ بھارت
بھارت میں اس برس 80 بلین ڈالر کی رقوم دیگر ممالک سے منتقل ہوئیں جو کہ گزشتہ برس کی نسبت پندرہ فیصد زائد ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس اضافے کی ایک بڑی وجہ کیرالا میں شدید سیلاب بھی بنے، جن کے بعد بیرون ملک مقیم بھارتی شہریوں نے اپنے اہل خانہ کی مدد کے لیے اضافی رقوم بھجوائیں۔ خلیجی ممالک سے رقوم کی ترسیل میں بارہ فیصد کمی دیکھی گئی۔ یہ رقوم بھارتی جی ڈی پی کا 2.8 فیصد بنتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
2۔ چین
چین میں بیرونی ممالک سے اس برس 67.4 بلین ڈالر بھیجے گئے۔ اس برس بھی دیگر ممالک میں مقیم چینی شہریوں کی جانب سے وطن بھیجی گئی رقوم براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سے زیادہ رہیں۔
تصویر: Imago/PPE
3۔ میکسیکو
اس برس میکسیکو میں دیگر ممالک سے 33.7 بلین ڈالر بھیجے گئے، جن میں سے زیادہ تر تارکین وطن نے بھیجے تھے۔ ورلڈ بینک کے مطابق آئندہ برس بھی بیرون ملک آباد میکسیکو کے شہریوں کی جانب سے رقوم کی ترسیل میں اضافہ جاری رہنے کی توقع ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
4۔ فلپائن
چوتھے نمبر پر فلپائن ہے، جہاں اس برس دیگر ممالک میں مقیم فلپائنی شہریوں نے 33 بلین ڈالر بھیجے۔ یہ رقم فلپائن کی مجموعی قومی پیداوار کے دس فیصد کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: Holger Ernst
5۔ مصر
گزشتہ برس کی نسبت چودہ فیصد اضافے کے ساتھ مصر کے تارکین وطن شہریوں نے 25.7 بلین ڈالر واپس اپنے وطن بھیجے۔ یہ رقوم مصری جی ڈی پی کا قریب گیارہ فیصد بنتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
6۔ نائجیریا
چھٹے نمبر پر افریقی ملک نائجیریا ہے، جہاں اس برس 25.1 بلین ڈالر بھیجے گئے، جن میں سے زیادہ تر نائجیرین تارکین وطن نے بھیجے۔ بیرون ممالک سے بھیجی گئی یہ رقوم ملکی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. U. Ekpei
7۔ پاکستان
رواں برس پاکستان کو دیگر ممالک سے قریب 21 بلین ڈالر موصول ہوئے، جو گزشتہ برس کی نسبت 6.2 فیصد زیادہ ہے۔ زیادہ تر بیرون ملک آباد پاکستانی شہریوں کی جانب سے بھیجی گئی یہ رقوم ملکی جی ڈی پی کا 6.9 فیصد بنتی ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس برس سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں سے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم میں گزشتہ برس کے مقابلے میں چھبیس فیصد کی کمی ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
8۔ یوکرائن
آٹھویں نمبر پر یوکرائن ہے، جہاں اس برس بیرون ملک آباد یوکرانی باشندوں اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی مد میں 16.5 بلین ڈالر بھیجے گئے۔ یہ رقوم یوکرائن کی مجموعی قومی پیداوار کا 13.8 فیصد بنتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Supinsky
9۔ بنگلہ دیش
سن 2018 کے دوران بنگلہ دیش میں بیرون ملک سے سولہ بلین ڈالر بھیجے گئے۔ اس برس بنگلہ دیش میں بھی خلیجی ممالک سے بھیجی جانے والی رقوم میں ایک چوتھائی کی کمی دیکھی گئی۔
تصویر: DW
10۔ ویت نام
ورلڈ بینک کے مطابق دسویں نمبر پر ویتنام ہے، جہاں رواں برس 15.9 بلین ڈالر دیگر ممالک سے منتقل کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
10 تصاویر1 | 10
ڈاکڑ عذرا کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ سرمایہ دارانہ معیشت کا ہے۔ ''پوری دنیا میں بھوک و افلاس میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں گراوٹ ہے، تو اصل مسئلہ نظام کے بدلنے کا ہے۔‘‘
کراچی سے تعلق رکھنے والی اقتصادی امور کی ماہر ڈاکڑ شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ اس شرح نمو میں کمی سے جو معاشی مسائل جنم لیں گے، اس سے ملک میں سیاسی انتشار پھیلے گا۔
ڈاکٹر شاہدہ وزارت کے مطابق، ''اس کمی سے روزگار کے مواقع کم ہوں گے۔ غربت بڑھے گی۔ حکومت اپنے اخراجات کم کرنے کی کوشش کرے گی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم، صحت اور دوسرے سماجی شعبوں کے بجٹ میں کمی کی جائے گی، جس سے غربت میں اضافہ ہوگا اور غربت کی وجہ سے جرائم بھی بڑھیں گے۔ جو سیاسی انتشار کا موجب بن سکتے ہیں۔‘‘
کچھ سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ مسلسل شرح نمو میں کمی سے کراچی، فیصل آباد، لاہور اور ملک کے دیگر علاقوں میں جرائم کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلی ڈاکڑ عبدالمالک نے دعویٰ کیا کہ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے ملک میں بیس لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''یہ بین الاقوامی پیمانہ ہے کہ ایک فیصد اگر شرح نمو کم ہوتی ہے تو دس لاکھ افراد بے روزگار ہو جاتے ہیں۔ نواز دور میں ترقی کی شرح پانچ فیصد سے زیادہ تھی اور اب وہ تین فیصد سے بھی کم ہو گئی ہے۔ جب کہ اگلے برس یہ مزید کم ہو جائے گی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوگا۔ ریاستی اداروں کے خلاف غصہ بڑھے گا اور ملک ممکنہ طور پرسنگین سماجی و سیاسی مسائل کا شکار ہو جائے گا۔‘‘
پاکستان میں غربت مکاؤ پروگرام کے لیے کام کرنے والے عامر حسین کا خیال ہے کہ معاشی شرح نمو میں کمی سے فی کس آمدنی میں بھی مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''دوہزار اٹھارہ میں فی کس آمدنی سولہ سو پچاس امریکی ڈالر تھی اب یہ پندرہ سو ہو گئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس وقت شرح نمو پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تھی جو اب دو اعشاریہ چھ فیصد ہے اور اگلے برس یہ دو اعشاریہ چار تک رہ جائے گی اور تب فی کس آمدنی چودہ سو نوے ڈالر ہو جائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہماری فی کس آمدنی بنگلہ دیش سے بھی کم ہو جائے گی۔‘‘
عامر حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر حکومت نے ہنگامی اقدامات نہ کیے تو ہر سال مزید چالیس لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا، ''اب بھی سرکاری طور پر پچیس فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں جب کہ آزاد ذرائع کا خیال ہے کہ غربت کی شرح انتالیس فیصد ہے۔ حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے ایک سو اسی بلین روپے رکھے تھے۔ معاشی نمو میں کمی کی وجہ سے اس کو پہلے ہی ایک سو چالیس ارب کر دیا گیا ہے اور مزید کم کیے جانے کی خبریں بھی ہیں۔ ایسی صورت میں غربت میں بے پناہ اضافہ ہو گا، جو سیاسی طور پر بہت منفی ہو سکتا ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے وفاقی حکومت کے کئی ذمہ داروں سے رابطے کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے ٹیلی فون کالوں کا جواب نہیں دیا۔
معاشی بدحالی کے شکار سوات کے مزدور
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پخونخوا کی وادی سوات میں روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے ہزاروں مزدور کم اُجرت ملنے اور مہنگائی میں ہوشربا اضافے سے بدحالی کا شکار ہیں۔ یہ وادی طویل عرصے تک دہشت گردی سے متاثرہ رہی ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
کام ملتا نہیں اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟
وادی سوات میں روزانہ کی اُجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو کئی ہفتوں تک کام نہیں ملتا اور وہ سارا دن کسی مسیحا کے منتظر رہتے ہیں۔ مینگورہ کے رہائشی مزدور نور زمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ دوسرا ہفتہ ہے کہ انہیں کوئی کام نہیں ملا جس کے باعث انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور گھر کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ نور زمان کے مطابق لوگوں سے اُدھار لے کر گھر کا چولہا چل رہا ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
دہشت گردی، قدرتی آفات اور اب فاقے
دہشت گردی، فوجی آپریشن اور قدرتی آفات کی وجہ سے تباہ حال وادی سوات کی معیشت تاحال اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکی جس کے باعث کاروبارِ زندگی مفلوج اور مزدور فاقوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔
تصویر: DW/A. Bacha
سخت محنت اور کم اُجرت،کیا خریدوں؟
مینگورہ کے ایک اور مزدور عطاءالرحمن نے بتایا کہ روزانہ کی بنیاد پر بڑی مشکل سے تین چار سو روپے کی دہاڑی لگ جاتی ہے، ’’ان پیسوں سے گھر کا کرایہ ادا کریں یا بجلی کا بل؟ گھریلوں اخراجات پوری کریں یا بچوں کی اسکول کی فیس کچھ سمجھ نہیں آتا۔‘‘
تصویر: DW/A. Bacha
کس بات کی چھٹی منائی جارہی ہے؟
روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ آج پوری دنیا میں اُن کے نام پر چھٹی منائی جا رہی ہے۔ حسین علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اُنہیں علم نہیں کہ آج کس بات کی چھٹی منائی جارہی ہے، ’’ہم تو اپنے بچوں کی دو وقت کی روٹی کے لیے سرگرداں ہیں۔‘‘
تصویر: DW/A. Bacha
بارہ افراد کا واحد کفیل
کامران خان چائے کے ہوٹل میں روزانہ کی اجرت پر کام کرتا ہے اور گھر کے دیگر بارہ افراد کے لیے روزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے۔ کامران کے مطابق روزانہ پانچ سو روپے ملتے ہیں جس سے گھر کے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں، ’’مہنگائی میں روزبروز اضافے اور کم اجرت سے زندگی جینا مشکل ہوگیا ہے۔‘‘
تصویر: DW/A. Bacha
مزدوروں کا استحصال اور قانون سازی
ملک بھر کی طرح وادی سوات کے مزدوروں کے استحصال میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کےمطابق مؤثر قانون سازی نہ ہونے اور حکومتی عدم توجہی کے باعث مزدور طبقہ غربت کی چکی میں پستا چلا جا رہا ہے۔ اگر مؤثر قانونی سازی کی جائے اور اس پر فوری عمل کیا جائے تو اس طبقے کی محرومیاں دور ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
مفلوج کاروبار زندگی
وادی سوات میں اس وقت معاشی حالات ابتر ہیں جس کے باعث مزدوروں کی زندگیاں بھی متاثر ہو رہی ہے، مینگورہ کے ایک کاروباری شخص اکرام اللہ نے بتایا کہ جب حالات بہتر تھے تو کاروبار بھی منافع بخش تھا مگر اب ہم اپنا خرچہ برداشت نہیں کرپاتے تومزدوروں کو کہاں سے دیں۔
تصویر: DW/A. Bacha
کارخانے بند، مزدور بے روزگار
سوات میں ریاستی دور سے بہت سے کارخانے اور فیکٹریاں چل رہی تھیں جن میں سلک اور کاسمیٹک انڈسٹریز نمایاں تھیں، اب وہ کارخانے بھی زیادہ تر بند ہیں اور اس میں کام کرنے والے سیکڑوں مزدور بے روزگار ہیں۔