1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی نئی توانائی پالیسی اور کے ای ایس سی کی مثال

شادی خان سیف1 جولائی 2013

پاکستانی کی نئی متوقع توانائی پالیسی کے لیے بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی نجکاری کا معاملہ ایک اہم اور حساس ہے، جس سے امیدیں اور خدشات دونوں وابستہ ہیں۔

تصویر: Reuters

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بجلی کی تقسیم پر مامور کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی 2005ء میں نجکاری سے اب تک کے سفر سے کئی اسباق سیکھے جاسکتے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اگرچہ تب سے اب تک اس کمپنی کے صدر دفتر پر مشتعل افراد کے حملے، اس کے ملازمین کے اغواء کے متعدد واقعات اور حکومت کی جانب سے اس کے سربراہ کو گرفتار کرنے کی کوشش جیسے کئی انوکھے واقعات رونما ہوچکے ہیں تاہم زمینی حقائق کے مطابق ملک کے دیگر علاقوں کے نسبت میگا سٹی کراچی میں بجلی کی تقسیم کی صورتحال قدرے منظم ہے۔

روئٹرز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کے ای ایس سی کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر تابش گوہر کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی ٹیم اپنی تمام تر توانائی صرف کر رہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم نواز شریف نے انتخابات سے قبل عوام سے ملک میں موجود توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے وعدے کیے تھے اور ان کی جیت میں اس نکتے نے اہم کردار نبھایا۔ امکان ہے کہ جلد ہی نئی توانائی پالیسی کا اعلان کردیا جائے گا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پاور کمپنیوں کی نجکاری کے معاملے پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔

تصویر: STR/AFP/Getty Images

پاکستان کے بیشتر علاقوں میں روزانہ 12 گھنٹے تک بجلی کا تعطل معمول بن چکا ہے، جس نے ملکی اقتصادیات کا دیوالیہ نکال رکھا ہے۔ پاور کمپنیوں میں بھی ملک کے دیگر محکموں کی طرح کرپشن عام ہے جبکہ کئی بااثر لوگ بجلی کے بل بھی ادا نہیں کرتے۔ عوام کو پیداواری لاگت سے سستی بجلی فراہم کی جارہی ہے، جس کے بدلے میں حکومت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو رقم (سبسڈی) فراہم کرتی ہے، جبکہ اب ادائیگیوں کا تعطل نئے بحران کو جنم دیتا ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کے مطابق کے ای ایس سی کے ذمے 500 ملین ڈالر رقم واجب الادا ہے۔ کے ای ایس سی کہتی ہے کہ حکومت نے ان کے 720 ملین ڈالر دینے ہیں۔

امریکی ادارے یو ایس ایڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں بجلی تقسیم کرنے والی کمپنی PESC کے بیشتر ملازمین ناخواندہ ہیں، نئے بھرتی کیے گئے بیشتر ملازمین سابقہ ملازمین کے رشتہ دار ہیں جبکہ شہر میں 37 فیصد بجلی چوری کی جاتی ہے۔

روئٹرز کے مطابق KESC میں بھی یہ تمام مسائل موجود تھے جب 2008ء میں دبئی کی ابراج کیپیٹل نے اس کے شیئرز خریدے۔ اس کے بعد تابش گوہر اور ان کی ٹیم نے عملے میں ایک تہائی کمی کردی، بجلی ادا نہ کرنے والوں کے کنکشن کاٹ دیے۔ اس نے ایک جنگ کی سی کیفیت کو جنم دیا۔

تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

روئٹرز کے مطابق چونکہ ملازمین بھاری رشوتیں لیتے تھے اسی لیے انہوں نے مفت میں بھی کام کرنے پر حامی بھرلی تھی تاہم کے ای ایس سی ملازمین کے طویل احتجاج کے باوجود نہ مانی۔ ’’ہم بہت تنہا محسوس کر رہے تھے ان دنوں، جب میں اپنے زخمی ہونے والے ساتھیوں سے ہسپتال میں ملنے جاتا تھا تو میرے لیے ان سے آنکھیں ملانا مشکل ہوتا تھا۔‘‘ تابش گوہر کو اسلام آباد میں توانائی سے متعلق ایک اہم اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر سابقہ حکومت نے گرفتار کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔

کے ای ایس سی کے سابقہ ملازمین کے احتجاج کا سلسلہ رکنے کے بعد اب کمپنی کے سامنے دوسرا بڑا چیلنج ادائیگیوں کی وصولی کرنا تھا۔ سال 2009ء میں شہر کے اندر تقسیم کی جانے والی بجلی کے ایک تہائی حصے کی رقم وصول نہیں کی جاتی تھی۔ اب شہر کے ان علاقوں میں بجلی بہت کم منقطع ہوتی ہے جہاں شہری بل کی ادائیگی کرتے ہیں جبکہ ایسے علاقوں میں کے ای ایس سی کے خلاف خاصی نفرت موجود ہے جہاں ادارے کے مطابق خاصی بجلی چرائی جاتی ہے اور لوڈ شیڈنگ بھی زیادہ ہے۔ صارفین سے بہتر تعلقات کے قیام کے لیے کے ای ایس سی کے درجنوں رضاکار اسکولوں اور 18 سرکاری ہسپتالوں کو مفت بجلی فراہم کر رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں