1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری: شکایات کیا اور کیوں؟

30 اپریل 2023

پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری اختتامی مراحل میں ہے۔ اس کا مقصد 2017ء کی مردم شماری سے جڑے تنازعات کا خاتمہ اور شفاف طریقے سے اعداد و شمار جمع کرنا ہے، جس پر تمام سٹیک ہولڈرز کو اتفاق ہو اور وہ اس کے نتائج تسلیم کریں۔

تصویر: DW/R. Saeed

اگرچہ ابھی تک حالیہ مردم شماری کے حتمی نتائج سامنے نہیں آئے لیکن مختلف سیاسی جماعتیں اور سماجی گروہ اس کے طریقہ کار اور ممکنہ نتائج پر شدید شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی اپنے تحفظات پر مبنی ایک قرار داد منظور کر چکی ہے۔ ابھی کچھ روز قبل ایم کیو ایم کے وفد نے وفاقی وزراء سے ملاقات میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا، ''اعداد و شمار درست کرنے کے لیے ایک جائزہ کمیٹی تشکیل دی جائے۔‘‘

جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کراچی کی آبادی ''کم ظاہر کرنے‘‘ اور سندھ کی قوم پرست جماعتیں اپنی ''شناخت‘‘ کو درپیش خطرات پر صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیں۔ اسی طرح پنجاب سے اقلیتی برادری کے تحفظات بھی ریکارڈ پر آ چکے ہیں۔ اگرچہ ماضی کے برعکس حالیہ مردم شماری ڈیجیٹل طریقے سے کی جا رہی ہے مگر طریقہ کار تبدیل ہونے کے باوجود دوبارہ وہی اعتراضات کیوں سامنے آ رہے ہیں، جو 2017 میں اٹھائے گئے تھے؟

 سن 2017 کی مردم شماری اسی ریکارڈ کی بنیاد پر ہوئی تھیتصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

جب تک بنیاد ٹھیک نہ ہوئی شکایات دور نہ ہو سکیں گی

مردم شماری کے طریقہ کار سمیت اس موضوع پر کئی تحقیقی مضامین کے مصنف ڈاکٹر نواز الہدی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مردم شماری کے تین مراحل ہوتے ہیں، ''پہلا  ہے بلاک ڈی لیمیٹیشن، یعنی پورے ملک کو چھوٹے چھوٹے بلاکس میں تقسیم کرنا۔ اس کا مقصد شمار کنندگان کی ذمہ داریوں اور مجموعی بجٹ کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ بالعموم شہری آبادی میں 200 سے 250 جبکہ دیہی آبادی میں 115 سے 150 گھروں پر مشتمل ایک بلاک ہوتا ہے۔ دوسرا مرحلہ خانہ شماری ہے، جس میں ہر بلاک کے ایک ایک گھر کو گنا جاتا ہے۔ تیسرا مرحلہ مردم شماری ہے، جس میں ہر گھر کے ایک ایک فرد کی تفصیلات شامل کی جاتی ہیں۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ 2008 ء میں مردم شماری ہونا تھی۔ تب از سر نو بلاک ڈی لیمیٹیشن کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے ایسے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ بلاک درج کروانے کی کوشش کی جہاں وہ اکثریت میں تھے، ''ان جماعتوں کا خیال تھا کہ یوں مردم شماری میں وہ اپنی تعداد زیادہ دکھا سکیں گی، جس کا فائدہ انہیں زیادہ نشستوں کی صورت میں ملے گا۔ اس طرح بلاکس کا غلط ریکارڈ مرتب ہوا۔‘‘

 سن 2017 کی مردم شماری اسی ریکارڈ کی بنیاد پر ہوئی تھی اور یہی چیز حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری میں دہرائی جا رہی ہے۔ سندھ کے لیے مردم شماری ایک بہت حساس معاملہ ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق شناخت اور وسائل سے جڑا ہے۔ اس لیے جب تک بنیاد ٹھیک نہ ہوئی شکایات دور نہ ہو سکیں گی۔ جب بلاک ڈی لیمیٹیشن کا مرحلہ ہی شکوک و شبہات کی زد میں ہے تو باقی دونوں فیز اور بحیثیت مجموعی مکمل مردم شماری کیسے شفاف ہو سکتی ہے؟

حالیہ مردم شماری پر شکایت کی نوعیت کیا ہے؟

کراچی سے مقامی صحافی اور مردم شماری کی رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھنے والے رپورٹر عبد الجبار ناصر ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ''اِس بار بھی سب سے زیادہ شکایات سندھ کو ہیں۔ ابھی تک کراچی کی آبادی 1 کروڑ 40 لاکھ کے قریب ظاہر کی جا رہی ہے جو کہ چھ برس پہلے کی آبادی سے بھی کم ہے۔ اگر کراچی کی آبادی 1 کروڑ 80 لاکھ سے کم ہوئی تو قومی اسمبلی کی دو جبکہ صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں اندرون سندھ چلی جائیں گی، جس پر ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کو شدید تحفظات ہیں۔‘‘

خیال رہے کہ کراچی کی آبادی کے حوالے سے ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ وہ تین کروڑ سے زائد ہے۔ دوسری طرف سندھ کی قوم پرست جماعتیں اپنی شناخت کے حوالے سے عدم تحفظ کے خدشات ظاہر کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے منعقدہ ہونے والی کانفرنس میں ملٹی پارٹیز کانفرنس کے صدر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ سندھ میں مقیم غیرملکی تارکین وطن کے لیے مردم شماری کے فارم میں علیحدہ خانہ رکھ کر گنا جائے تاکہ یہ پتہ لگ سکے کہ سندھ میں ان کی آبادی کتنی ہے۔

کوٹہ سسٹم، وسائل کی تقسیم اور اسمبلی کی نشستیں گزشتہ چار دہائیوں سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان کھینچا تانی کا سبب رہی ہیںتصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

پنجاب میں اقلیتی برادری کی طرف سے ڈیجیٹل کے بجائے کاغذ قلم کے ذریعے ان کے کوائف کے اندراج کی شکایات کی گئی ہیں، جنہیں بعد میں تبدیل کرنے کے خدشات کا اظہار کیا گیا۔ اسی طرح کشمیر میں بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی، جس کی وجہ قومیت کے زمرے میں بطور کشمیری شناخت شامل نہ کرنا ہے۔

’’ہم کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کرتے تو مردم شماری کیوں کریں‘‘

پولیٹیکل سائنس کی استاد ڈاکٹر فرحت احتشام کہتی ہیں، ''ہم کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کرتے تومردم شماری کیوں کریں۔ جسے دیکھو دوسرے کو روندنے کے درپے ہے۔‘‘ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ شناخت اور نمائندگی بہت حساس معاملات ہیں اور یہ براہ راست مردم شماری سے جڑے ہیں، ''مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں ہوں گی اور پھر اسمبلی میں نشستوں کا تعین بھی اسی حساب سے ہو گا۔‘‘

 وہ مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ سن2017 کی مردم شماری کے بعد پنجاب سے 9 نشستیں کم ہو کر پانچ خیبرپختونخوا، تین بلوچستان اور ایک وفاق کو مل گئی تھی، '' اگر لوگوں کی گنتی درست نہیں ہو گی تو ان کی نمائندگی کے درست استحقاق کا تعین کیسے ہو گا؟ اور یہ سب بنیادی انسانی حقوق کا حصہ ہیں، جس کے بغیر جمہوری معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

حالیہ مردم شماری سے دراڑ مزید گہری ہو گی

 ڈاکٹر نواز الہدی کہتے ہیں کہ حکومت بغیر تیاری ایک دلدل میں کود پڑی، جس سے نکلنا آسان نہ ہو گا۔ ان کے بقول اگر سن 2017 کی طرح دوبارہ انہی تنازعات میں گھرنا تھا تو 34 ارب خرچ کرنے کا فائدہ؟ حکومت کے لیے مختلف گروہوں کی شکایات کا ازالہ انتہائی مشکل ہو گا۔

 وہ کہتے ہیں کہ سندھ میں یہ مسئلہ بھٹو دور سے چل رہا ہے۔ کوٹہ سسٹم، وسائل کی تقسیم اور اسمبلی کی نشستیں گزشتہ چار دہائیوں سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان کھینچا تانی کا سبب رہی ہیں، ''اگر تازہ مردم شماری سے پہلے کچھ چیزیں طے کر لی جاتیں تو بہتر رہتا۔ خدشہ ہے کہ حالیہ مردم شماری سے یہ دراڑ مزید گہری ہو گی۔‘‘

شکایات کا جائزہ لینے کے لیے قائم کمیٹی

دو ہفتے قبل وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بڑے شہروں میں کم گنتی کے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے۔ کمیٹی میں وفاقی سیکرٹری منصوبہ بندی، صوبائی چیف سکریٹریز اور چیف ادارہ شماریات شامل ہوں گے۔ کمیٹی بڑے شہروں میں کم گنتی کے معاملے کو دیکھنے کے لیے متفقہ طریقہ کار وضع کرے گی۔ کمیٹی کب تک اپنی سفارشات پیش کرے گی اس کی ڈیڈ لائن ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر فرحت احتشام کہتی ہیں، ''سیاست بند گلی میں سے دروازہ نکالنے کا نام ہے۔ اس لیے امید رکھنی چاہیے کہ ایسا حل نکل آئے گا جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔‘‘

پاکستان میں مردم شماری کے لیے اونٹ کی سواری زير استعمال

02:16

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں