پاکستان کی ہر عورت بے نظیر کی طرح ہے، بلاول بھٹو زرداری
22 دسمبر 2016![Pakistan Bilawal Bhutto Zardari](https://static.dw.com/image/16481133_800.webp)
پاکستانی پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے یہ گفتگو کراچی آرٹس کونسل میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ایم این اے نفیسہ شاہ کی تحریر کردہ کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر کی۔ نفیسہ شاہ کی کتاب ’آنر ان ماسکڈ‘ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کر دیے جانے کے موضوع پر تحریر کی گئی ہے۔ اس کتاب کو شائع کرنے والی کمپنی آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی ویب سائٹ پر اس کتاب کے بارے میں لکھا گیا ہے،’’ نفیسہ شاہ نے بطور صحافی اور محقق کئی برس کام کیا ہے۔ اس کتاب میں وہ بیان کرتی ہیں کہ ریاست کا عدالتی نظام اور ریاست کا متوازی عدالتی نظام صوبے سندھ میں ’کارو کاری‘ جیسی فرسودہ روایت کو جگہ فراہم کرتے ہیں۔‘‘
اس کتاب کی تقریب رونمائی کی تصاویر کو سوشل میڈیا پر شائع کیا گیا اور اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کرتے رہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا،’’ میری نسل کو اس خطرناک معاملے کا حل نکالنا ہوگا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی مدد کے باوجود ان کی والدہ کے قتل کے حوالے سے ان کے خاندان کو انصاف نہیں مل سکا۔ بلاول بھٹو نے کہا،’’ میں وعدہ کرتا ہوں کہ پاکستان کا ہر بچہ اور ہر عورت میرے لیے اسی طرح خاص ہے جیسے کہ بے نظیر بھٹو۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی سیاست اور پارٹی کے منشور میں اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہماری ماؤں اور بہنوں کو تحفظ حاصل ہو۔
اس موقع پر نفیسہ شاہ نے کہا کہ یہ کتاب دس برس سے زائد عرصے تک حاصل کیے گئے تجربات اور ان کے مشاہدات کا نچوڑ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی زندگی میں چار خواتین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان میں بے نظیر بھٹو، نیوز لائن جریدے کی ایڈیٹر رضیہ بھٹی، ان کی استاد ہیلن کالوے اور ان کی والدہ حسن افروز شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان میں غیرت کے نام ہر قتل کو ایک سماجی مسئلے کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال پاکستان میں کم از کم ایک ہزار خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر قاتل سزا سے بچ جاتے ہیں۔ اس برس پاکستانی پارلیمنٹ نے ’غیرت کے نام‘ پر قتل کے حوالے سے پیش کردہ مسودہٴ قانون کی منظوری دے دی تھی۔ اب غیرت کے نام پر قتل کرنے والے شخص کو سزائے موت اور عمر قید کی سزا ہو سکے گی۔ تاہم سماجی ماہرین کی رائے میں جب تک قانون پر سختی سے عمل در آمد کو یقینی نہیں بنایا جائے گا اور معاشرتی رویوں کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی تب تک اس ظلم اور بربریت کا خاتمہ ممکن نہ ہوگا۔