1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے ایٹمی دھماکے، کتنا فائدہ کتنا نقصان

28 مئی 2012

سوموار کے روز پاکستان میں اٹھایئس مئی سن 1998 کو کیے جانے والے ایٹمی دھماکوں کی چودھویں سالگرہ منائی گئی۔ یوم تکبیر قرار دیے جانے والے اس دن ملک بھر میں خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔

تصویر: Picture-Alliance/dpa

پاکستان میں ہونے والے ان ایٹمی دھماکوں کے چودہ برس بعد بھی بہت سے لوگ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان نے ان دھماکوں کے بعد کیا کھویا اور کیا پایا۔

ایٹمی ہتھیاروں کی سیاست پر نظر رکھنے والے ممتاز ماہر پروفیسر سجاد نصیر نے بتایا کہ ان دھماکوں کے نتیجے میں پاکستان کے دفاع کو استحکام ملا اور برصغیر میں روایتی جنگ کا آپشن ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا، تاہم ان کے بقول اس صورتحال کا نقصان یہ ہوا کہ جنگ کے آپشن کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان اور بھارت نچلے درجے کی سیاست کرنے لگے اور پراکسی وار اور دوسرے طریقوں سے ایک دوسرے کے حساس معاملات میں مداخلت بڑھ گئی۔

ممتاز ماہر سیاسیات ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے کرنے کا پاکستانی فیصلہ درست تھا کیونکہ پاکستان کے لیے اپنی ایٹمی صلاحیت کو دنیا کے سامنے لانا بہت ضروری ہو گیا تھا۔ ان کے بقول ان دھماکوں سے پاکستان کا دفاع بہتر ہوا اور پاک بھارت تعلقات کو استحکام ملا مگر پاکستان کو اقتصادی طور پر بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پرغیر ملکی سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہوئی۔

ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو اقتصادی طور پر بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتصویر: picture-alliance/dpa

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایٹمی صلاحیت ایک خاص صورتحال میں تو فائدہ مند ہوتی ہے اس کے باہر اس کا زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ نیوکلیئر صلاحیت نہ تو کسی ملک کے اقتصادی مسائل حل کر سکتی ہے اور نہ ہی اس سے دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جب تک کوئی ملک اقتصادی طور پر مضبوط نہ ہو، وہ اپنی اندرونی خلفشار پر قابو نہ پائے، اسے کوئی ایٹمی ہتھیارنہیں بچا سکتا، سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

ممتاز سائنس دان ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان دھماکوں کا صرف ایک فائدہ پاک بھارت جنگ روکنا تھا لیکن اس کے نقصانات زیادہ تھے۔ ان کے بقول ان دھماکوں نے اقتصادی طور پر پاکستان کو کمزور کیا اور یہاں ایک ایسی سوچ پروان چڑھی کہ اب ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں، اسی سوچ کی وجہ سے کارگل کا واقعہ سامنے آیا۔ ان کے بقول جی ایچ کیو، نیول بیسز اور فوجی تنصیبات پر دہشت گردوں کے حملوں سے ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کے بارے میں عالمی سطح پر تشویش پیدا ہوئی۔ اس کے علاوہ ایٹمی ٹیکنالوجی کی دوسرے ملکوں کو فراہمی کی خبروں نے بھی پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا۔

دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیر (ر) فاروق حمید کا کہنا ہے کہ ان دھماکوں کے نتیجے میں خطے میں دفاعی توازن بہتر ہوا، پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی امید پیدا ہوئی اور پاکستان کے حوالے سے بھارتی رویے میں کافی بہتری آئی۔ ان کے بقول ایٹمی بجلی کی تیاری بھی انہی دھماکوں کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکی ہے۔

روزنامہ جنگ کے کالم نگار اور سینیئر صحافی ارشاد احمد عارف نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستانی دھماکے دراصل بھارتی دھماکوں کا ردعمل تھے اور میڈیا، عوام، سائنس دانوں اور فوج کے دباؤ کی وجہ سے نواز شریف اس فیصلے سے ہٹ ہی نہیں سکتے تھے۔ ان کے بقول روز اول سے دفاعی خطرات سے دوچار پاکستان کا دفاع ان دھماکوں سے ہمیشہ کے لیے مستحکم توہو گیا تاہم پاکستان کی سیاسی قیادت کی کمزوریوں کی وجہ سے ایٹمی صلاحیت کے غیرجنگی ثمرات (بجلی وغیرہ) پوری طرح ملک کو نہیں حاصل ہو سکے۔ ان کے مطابق اس ایٹمی ملک کے معاشی طور پر مضبوط نہ ہو سکنے کی وجہ سے آج کی نوجوان نسل یہ سوال بھی پوچھتی ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہماری حفاظت کر رہا ہے یا ہم اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں