پاکستان کے دیہی علاقوں میں خواتین پر تشدد میں اضافہ
9 اگست 2011عاصمہ فردوس ایسی ہی متاثرہ خواتین میں سے ایک ہے۔ رواں برس چودہ اپریل کو دو شخص اس کے گھر میں گھس گئے تھے۔ انہوں نے اس کی چھ انگلیاں کاٹ ڈالیں، بازو چھیل دیے جبکہ اس کی ناک بھی کاٹ دی۔ وہاں سے جاتے ہوئے انہوں نے اٹھائیس سالہ عاصمہ کو گھر کے اندر بند کر دیا تھا۔
یہ خاتون پاکستان کے جنوبی علاقے میں کہوڑ جنوبی گاؤں کی رہائشی ہے۔ وہ دراصل اپنے شوہر کی وجہ سے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنی۔ اس کے شوہر کے کچھ رشتے داروں کے ساتھ کوئی تنازعہ تھا اور انہوں نے انتقاماﹰ عاصمہ کو نشانہ بنایا، جو ملتان کے ہسپتال میں زیر علاج ہے، جہاح موجود اس کے والد غلام مصطفیٰ نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں کہا: ’’میں نہیں جانتا کہ جب وہ (عاصمہ) ہسپتال سے جائے گی تو اس کے ساتھ کیا ہوگا۔‘‘
غلام مصطفیٰ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا عاصمہ اپنے شوہر کے پاس جائے گی تو وہ خاموش رہے۔
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے ایک سروے کے مطابق خواتین کے لیے خطرناک ترین ملکوں میں پاکستان کا نمبر تیسرا ہے۔ پہلے اور دوسرے نمبر پر افغانستان اور ڈیموکریٹک رپبلک کانگو ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان نے اپنی دو ہزار دس کی رپورٹ میں کہا کہ اس برس میں تقریباﹰ آٹھ سو خواتین کو ’غیرت کے نام‘ پر قتل کیا گیا جبکہ دو ہزار نو خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے دو ہزار چھ محض پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ان زیادتیوں کا نشانہ بنی۔
یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق مئی تک ایک سال کے دوران عورتوں کے خلاف ہونے والی مجرمانہ کارروائیوں میں اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا۔
قائد اعظم یونیورسٹی میں جینڈر اسٹیڈیز کی ڈائریکٹر ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کے خلاف امتیازی رویوں کا اکثر دفاع کیا جاتا ہے۔
رپورٹ: سائرہ ذوالفقار
ادارت: ندیم گِل