پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سرحدی علاقوں میں جنگ کا خوف
عبدالستار، اسلام آباد
25 فروری 2019
پلوامہ حملے کے بعد سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اور بالخصوص کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں میں اب تشویش کی فضا پائی جاتی ہے اور سرحدی علاقوں سے عام لوگوں نے محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی شروع کر دی ہے۔
اشتہار
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ میں کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے جوہری ہتھیاروں کے حامل دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین کشیدگی پائی جاتی ہے۔ کئی بھارتی سیاست دان اس حملے کے بعد پاکستان سے ’انتقام لیے جانے‘ کے مطالبے بھی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ نئی دہلی نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں نئے سکیورٹی دستے بھی بھیجے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے عوام بھی سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکے ضلع حویلی سے تعلق رکھنے والے سید افتخار گیلانی کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کے پاس پیسے ہیں، وہ محفوظ علاقوں کی طرف جا رہے ہیں، ’’لیکن زیادہ تر لوگوں کے مال مویشی ہیں۔ ان کی فصلیں ہیں، وہ یہ سب چھوڑ کر کیسے کہیں اور چلے جائیں۔ میرا اپنا گاؤں ہنڈی پیراں تین اطراف سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے لگتا ہے۔ نزا پیر سیکٹر صرف ایک یا دو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ پہلے ہی لوگ روز روز کی شیلنگ سے خوفزدہ تھے۔ اب جنگ کے خدشات نے انہیں مزید خوف زدہ کر دیا ہے۔‘‘
ضلع پونچھ کے علاقے حاجیرہ سے تعلق رکھنے والے محمد نزاکت کا کہنا ہے کہ فوجی گاڑیوں کی نقل و حرکت تیز ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو لگ رہا ہے کہ کوئی جنگ ہونے والی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقفے وقفے سے فائرنگ اور گولہ باری تو اب بھی ہو رہی ہے۔ لیکن فوج کی نقل و حرکت سے ممکنہ جنگ کے آثار بڑھ رہے ہیں اور مقامی لوگ پیچھے کی طرف ہٹنے لگے ہیں۔‘‘
کشمیر کے پاکستان کے زیر انتظام حصے اور قانونی طور پر ’آزاد جموں کشمیر‘ کہلانے والی ’ریاست‘ کے سابق وزیر اعظم سردار عتیق کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف جنگی تیاریوں کے آثار بہت زیادہ نظر آ رہے ہیں، جس سے پاکستا ن کے زیر انتظام کشمیر میں بھی جنگ کے سائے منڈلانا شروع ہوگئے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بھارت نے (اپنے زیر انتظام) کشمیر کے سرحدی علاقوں میں لوگوں کو راشن جمع کرنے کے لیے کہہ دیا ہے۔ کچھ علاقے خالی بھی کرائے گئے ہیں۔ کشمیر میں اضافی بھارتی فوج بھی تعینات کر دی گئی ہے۔ اُدھر بھارتی آرمی چیف نے سخت بیان دیا ہے تو ادھر پاکستانی وزیر اعظم نے بھی ملکی مسلح افواج کو بھارت کی طرف سے کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لیے کہہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ ’آزاد (پاکستان کے زیر انتظام)کشمیر‘ کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے محکمے نے بھی ممکنہ ہنگامی صورت حال سے نمٹے سے متعلق ہدایات جاری کر دی ہیں۔ پاکستانی اور بھارتی فوجی دستے چوکنا ہیں۔ تو اس صورت حال میں سرحدی علاقوں میں رہنے والے کشمیری سخت تشویش میں مبتلا ہیں اور خوف کا شکار ہیں کیونکہ جنگ کا کوئی ’ٹائم ٹیبل‘ نہیں ہوتا۔ اسی لیے لوگوں حفظ ماتقدم کے طور پر خود اقدامات کر رہے ہیں۔‘‘
پلوامہ حملے کے بعد جہاں بھارت کی طرف سے سخت بیانات آئے تھے، وہیں پاکستانی سیاست دانوں کی طرف سے بھی اسی طرح کے بیانات داغ دیے گئے تھے۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
10 تصاویر1 | 10
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیر پچیس فروری کو مختلف ممالک کے وزراء اور دیگر اعلیٰ ذمہ دار اہلکاروں سے ٹیلی فون پر رابطے بھی کیے، جن میں انہوں نے موجودہ حالات کے حوالے سے ان ممالک کے نمائندوں کو پاکستانی موقف سے آگاہ کیا۔ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت کے اندر سے ’بدلے، بدلے‘ کی آوازیں آ رہی ہیں، لیکن اگر کوئی بھی ’مِس ایڈونچر‘ ہوا، تو پاکستان اس کا ’پوری طاقت سے جواب‘ دے گا۔
کئی ناقدین کے خیال میں اس طرح کے بیانات نے بھی کشمیریوں کی تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سربراہ توقیر گیلانی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس سے پہلے لوگوں میں کبھی اتنا خوف نہیں دیکھا۔
انہوں نے بتایا، ’’لوگوں کو لگ رہا ہے کہ جنگ کے بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں۔ کیا ستم ہے کہ دونوں طرف ظلم بھی کشمیریوں پر ہی ہو رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنگ کے شکل میں بھی ہماری ہی بستیاں، ہماری املاک، ہمارے شہر اور ہمارے دیہات ہی تباہ ہوں گے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کشمیر کو اپنی سیاست کی نذر کر دے۔ پاکستانی اور بھارتی سیاست دان اشتعال انگیز بیانات دینا بند کریں۔ ان بیانات نے ہمارے علاقوں میں خوف اور بے چینی کی فضا پیدا کر دی ہے۔‘‘
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔