پاکستان کی شدید مالیاتی مشکلات نگران حکومت کے لیے باعث تشویش
12 جون 2018
پاکستان میں اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات سے قبل ملک کو درپیش شدید نوعیت کے اقتصادی مسائل اور بےتحاشا تجارتی خسارے کے باعث نگران حکومت میں ریاست کے مالیاتی استحکام سے متعلق گہری تشویش پائی جاتی ہے۔
اشتہار
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے منگل بارہ جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس جنوبی ایشیائی ملک میں اگرچہ اس وقت آئندہ قومی انتخابات کی تیاریاں زوروں پر ہیں، لیکن ایک طرف ماہرین اور نگران حکومت کے علاوہ شاید ہی کسی کا دھیان گیا ہو۔ یہ پہلو پاکستان کو درپیش شدید نوعیت کے اقتصادی اور مالیاتی مسائل سے متعلق ہے، جو آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں اس ایٹمی طاقت کو ایک بڑے بحران سے دوچار کر سکتا ہے۔
منگل بارہ جون کے روز اسلام آباد میں جسٹس ریٹائرڈ ناصرالملک کی قیادت میں قائم نگران وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ملکی تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر استعمال کیے جائیں گے۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ان ذخائر میں پہلے ہی تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق خدشہ ہے کہ پاکستان کو مالی ادائیگیوں میں توازن کے حوالے سے ایک بحران کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت دو ہزار تیرہ کے بعد سے دوسری مرتبہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف سے نئے قرضے مانگنے پر مجبور بھی ہو سکتی ہے۔
روپیہ: پاکستان کے علاوہ اور کہاں کہاں چلتا ہے
روپیہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ کئی اور ممالک کی کرنسی بھی ہے۔ تاہم ان میں ہر ایک ملک کے روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مختلف ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کن ممالک میں روپیہ زیر گردش ہے۔
تصویر: Fotolia/Unclesam
پاکستان
برصغیر کی تقسیم کے فوری بعد پاکستان نے برطانوی دور کے نوٹ اور سکے ہی استعمال کیے، صرف ان پر پاکستان کی مہر لگا دی گئی۔ تاہم 1948سے پاکستان میں نئے نوٹ اور سکے بننے لگے۔ پاکستانی نوٹوں پر میں ملک کے بانی محمد علی جناح کی تصویر چھپی ہوتی ہے۔
تصویر: AP
بھارت
روپیہ سنسکرت کے لفظ روپيكم سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے چاندی کا سکہ۔ روپے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل انگریز حکومت کے روپیہ کے علاوہ کئی ریاستوں کی اپنی کرنسیاں بھی تھیں۔ لیکن 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد روپے کو پورے ملک میں بطور کرنسی لاگو کر دیا گیا۔
تصویر: Reuters/J. Dey
سری لنکا
سری لنکا کی کرنسی کا نام بھی روپیہ ہی ہے۔ 1825میں برطانوی پاؤنڈ سری لنکا کی سرکاری کرنسی بنا۔ اس سے پہلے وہاں سيلونيج ركسڈلر نام کی کرنسی چلتی تھی۔ انگریز دور میں کئی دہائیوں تک برطانوی پاؤنڈ سری لنکا کی کرنسی بنا رہا جسے اس وقت سیلون کہا جاتا تھا۔ لیکن یکم جنوری 1872 کو وہاں روپیہ سرکاری کرنسی کے طور پر اپنایا گیا۔
بھارت کے پڑوسی ملک نیپال کی کرنسی کا نام بھی روپیہ ہے جو 1932 سے زیر استعمال ہے۔ اس سے پہلے وہاں چاندی کے سکے چلتے تھے۔ نیپال میں سب سے بڑا نوٹ ایک ہزار روپے کا ہوتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
ماریشس
ماریشس میں پہلی بار 1877 میں نوٹ چھاپے گئے تھے۔ شروع میں وہاں پانچ، دس اور 50 روپے کے نوٹ چھاپے گئے۔ تاہم 1919 سے ایک روپے کے نوٹ بھی چھاپے جانے لگے۔ ماریشس میں بڑی تعداد میں ہندوستانی نژاد لوگ آباد ہیں۔ اسی لیے کسی بھی نوٹ پر اس کی قیمت بھوجپوری اور تامل زبان میں بھی درج ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPhoto
انڈونیشیا
انڈونیشیا کی کرنسی رُپياه ہے جس کا اصل روپیہ ہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے کم قدر ہونے کی وجہ سے انڈونیشیا میں بڑی مالیت کے نوٹ چھاپے جاتے ہیں۔ وہاں سب سے بڑا نوٹ ایک لاکھ رپياه کا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/B. Indahono
سیشیلز
بحر ہند کے ایک جزیرے پر مشتمل ملک سیشیلز کی کرنسی بھی روپیہ ہی ہے۔ وہاں سب سے پہلے روپے کے نوٹ اور سکے 1914میں چھاپے گئے تھے۔ سیشیلز بھی پہلے برطانوی سلطنت کے تابع تھا۔ 1976میں اسے آزادی ملی۔ سمندر میں بسا یہ ملک اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
تصویر: Fotolia/Unclesam
7 تصاویر1 | 7
نگران پاکستانی وزیر خزانہ شمشاد اختر نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا، ’’پاکستان کو اس وقت بیرونی تجارت میں 25 ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ ہمیں اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے زر مبادلہ کے ذخائر استعمال کرنا پڑیں گے۔ اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔‘‘
شمشاد اختر، جو بین الاقوامی سطح کی ایک معروف ماہر اقتصادیات ہیں، نے کہا، ’’اقتصادی مسائل اور تجارتی خسارہ وہ بڑی پریشانیاں ہیں، جس کا موجودہ نگران حکومت کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ شمشاد اختر نے پاکستانی دارالحکومت میں آج یہ بات اس وقت کہی، جب اس سے محض چند ہی گھنٹے قبل ملک کے مرکزی بینک نے پاکستانی روپے کی قدر میں 3.7 فیصد کمی کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ یہ کمی پاکستانی کرنسی کی قدر میں گزشتہ برس دسمبر سے لے کر اب تک کی جانے والی تیسری کمی ہے۔ شمشاد اختر کے مطابق پاکستان کا مسئلہ صرف تجارتی خسارہ ہی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست کے ذمے وہ قرضے بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں، جو مجموعی قومی پیداوار کے 70 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان کی معیشت میں ترقی کی شرح بھی بہت تسلی بخش نہیں ہے۔
گزشتہ منتخب حکومت نے مالی سال 2017-18 کے لیے7.8 فیصد کی شرح نمو کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن یہ شرح 5.8 فیصد رہی، یعنی حکومتی اہداف سے دو فیصد کم۔ دوسری طرف پاکستان کے لیے ملک میں مقامی طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کی خونریز کارروائیاں اور توانائی کا وہ بحران بھی بہت نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں، جو سرمایہ کاری کے ماحول، صنعتی پیداوار اور مجموعی طور پر قومی معیشت کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔
م م / ع ب / اے ایف پی
معاشی بدحالی کے شکار سوات کے مزدور
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پخونخوا کی وادی سوات میں روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے ہزاروں مزدور کم اُجرت ملنے اور مہنگائی میں ہوشربا اضافے سے بدحالی کا شکار ہیں۔ یہ وادی طویل عرصے تک دہشت گردی سے متاثرہ رہی ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
کام ملتا نہیں اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟
وادی سوات میں روزانہ کی اُجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو کئی ہفتوں تک کام نہیں ملتا اور وہ سارا دن کسی مسیحا کے منتظر رہتے ہیں۔ مینگورہ کے رہائشی مزدور نور زمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ دوسرا ہفتہ ہے کہ انہیں کوئی کام نہیں ملا جس کے باعث انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور گھر کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ نور زمان کے مطابق لوگوں سے اُدھار لے کر گھر کا چولہا چل رہا ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
دہشت گردی، قدرتی آفات اور اب فاقے
دہشت گردی، فوجی آپریشن اور قدرتی آفات کی وجہ سے تباہ حال وادی سوات کی معیشت تاحال اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکی جس کے باعث کاروبارِ زندگی مفلوج اور مزدور فاقوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔
تصویر: DW/A. Bacha
سخت محنت اور کم اُجرت،کیا خریدوں؟
مینگورہ کے ایک اور مزدور عطاءالرحمن نے بتایا کہ روزانہ کی بنیاد پر بڑی مشکل سے تین چار سو روپے کی دہاڑی لگ جاتی ہے، ’’ان پیسوں سے گھر کا کرایہ ادا کریں یا بجلی کا بل؟ گھریلوں اخراجات پوری کریں یا بچوں کی اسکول کی فیس کچھ سمجھ نہیں آتا۔‘‘
تصویر: DW/A. Bacha
کس بات کی چھٹی منائی جارہی ہے؟
روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ آج پوری دنیا میں اُن کے نام پر چھٹی منائی جا رہی ہے۔ حسین علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اُنہیں علم نہیں کہ آج کس بات کی چھٹی منائی جارہی ہے، ’’ہم تو اپنے بچوں کی دو وقت کی روٹی کے لیے سرگرداں ہیں۔‘‘
تصویر: DW/A. Bacha
بارہ افراد کا واحد کفیل
کامران خان چائے کے ہوٹل میں روزانہ کی اجرت پر کام کرتا ہے اور گھر کے دیگر بارہ افراد کے لیے روزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے۔ کامران کے مطابق روزانہ پانچ سو روپے ملتے ہیں جس سے گھر کے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں، ’’مہنگائی میں روزبروز اضافے اور کم اجرت سے زندگی جینا مشکل ہوگیا ہے۔‘‘
تصویر: DW/A. Bacha
مزدوروں کا استحصال اور قانون سازی
ملک بھر کی طرح وادی سوات کے مزدوروں کے استحصال میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کےمطابق مؤثر قانون سازی نہ ہونے اور حکومتی عدم توجہی کے باعث مزدور طبقہ غربت کی چکی میں پستا چلا جا رہا ہے۔ اگر مؤثر قانونی سازی کی جائے اور اس پر فوری عمل کیا جائے تو اس طبقے کی محرومیاں دور ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/A. Bacha
مفلوج کاروبار زندگی
وادی سوات میں اس وقت معاشی حالات ابتر ہیں جس کے باعث مزدوروں کی زندگیاں بھی متاثر ہو رہی ہے، مینگورہ کے ایک کاروباری شخص اکرام اللہ نے بتایا کہ جب حالات بہتر تھے تو کاروبار بھی منافع بخش تھا مگر اب ہم اپنا خرچہ برداشت نہیں کرپاتے تومزدوروں کو کہاں سے دیں۔
تصویر: DW/A. Bacha
کارخانے بند، مزدور بے روزگار
سوات میں ریاستی دور سے بہت سے کارخانے اور فیکٹریاں چل رہی تھیں جن میں سلک اور کاسمیٹک انڈسٹریز نمایاں تھیں، اب وہ کارخانے بھی زیادہ تر بند ہیں اور اس میں کام کرنے والے سیکڑوں مزدور بے روزگار ہیں۔