1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے لئے 100 ملین یورو کی امداد، یورپی یونین

17 جون 2009

پاکستانی صدر آصف علی زرداری یورپی یونین اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ برسلز میں ہونے والی ان ملاقاتوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اہم ترین موضوع ہے۔

پاکستانی صدر آصف زرداری شنگھائی کے بعد برسلز پہنچ گئے ہیںتصویر: AP

نیٹو ہیڈ کوارٹرز پر مغربی دفاعی اتحاد کے سفیروں کے ساتھ ہونے والی کانفرنس کے اختتام پر پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے دہشت گردی خلاف جنگ کے حوالے سے کہا کہ پاکستان کے پاس شکست کا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔

پاکستان میں سلامتی کی خراب صورتحال کی بناء پر اس مسئلے کو برسلز میں پاکستانی صدر کی یورپی رہنماؤں سے ہونے والی ان ملاقاتوں میں اہم ترین حیثیت حاصل رہی۔

یہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے، جب پاکستان کی جانب سے افغانستان سے ملحقہ سرحد پر ایک بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف مالاکنڈ ڈویژن کے لاکھوں متاثرین مختلف علاقوں میں بنائی گئی خیمہ بستیوں میں مقیم ہیں۔


منگل کے روز امریکی سینٹ کمیٹی نے پاکستان کی غیر فوجی امداد میں اضافے کی منظوری دے دی تھی۔ امریکی امداد کے تحت پاکستان کو اگلے پانچ سالوں تک ایک اعشاریہ پانچ بلین ڈالر سالانہ کے حساب سے سات اعشاریہ پانچ ارب ڈالر امداد دی جائے گی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان اِس پہلی سربراہ کانفرنس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ مرکزی موضوع رہا۔

دریں اثناء یورپی یونین کے حکام نے پاکستان کو موجودہ انسانی اور مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے 72 ملین یوروز کی امدادی رقم دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں یورپی حکام اور پاکستانی صدر آصف علی زرداری کی برسلز میں سمٹ کے آغاز پر باقاعدہ اعلان سامنے آیا۔ یورپی کمیشن کے مطابق 20 ملین یوروز بہت جلد پاکستان کو دئے جائیں گے۔ یورپی کمیشن کے صدر خوسے مانوعیل باروسو نے کہا کہ یہ خطیر امدادی رقم پاکستان کے مالیاتی بحران سے نمٹنے کے علاوہ سوات وادی میں عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے میں کام آئے گی۔ وادیء سوات میں طالبان کے خلاف پاکستانی فوج کے جاری آپریشن کے نتیجے میں کم از کم تیس لاکھ افراد اندرون ملک نقل مقانی پرمجبور ہوچکے ہیں۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : امجدعلی

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں