1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاکستان کے لوگوں نے میرا دل موہ لیا‘

شیراز راج
29 جنوری 2019

بیلجیم کے فوٹوگرافر، بنوا سنیسن نے نوے کی دہائی میں اپنے ایک تعلیمی پراجیکٹ کے سلسلے میں پاکستان کی وادی ہنزہ جانے کا فیصلہ کیا۔ مگر وہاں کی خوبصورتی اور لوگوں سے ملنے والی محبت نے انہیں آج تک ہنزہ کا دلدادہ بنا رکھا ہے۔

Belgien Ausstellung Fotograf Banwa Sanson | Bilder aus Pakistan, Hunza
تصویر: DW/S. Raj

بلجیم کے شہر مونس میں منعقد ہونے والی بنوا سنیسن کی تصاویر کی نمائش میں ہنزہ کی خوبصورتی کو دیکھا جا سکتا ہے۔ سنیسن کے مطابق وہ ہنزہ کے فلک بوس پہاڑوں، حسین وادیوں اور سب سے بڑھ کر پاکستانی لوگوں کے ظرف اور کشادہ دلی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ کئی برسوں تک ان دشوار گزار اور خطرناک چوٹیوں، وادیوں اور گلیشئروں میں جاتے رہے۔ بیلجیم کے شہر مونس میں وادی ہنزہ کے عنوان سے انتہائی متاثر کن تصویری نمائش کے افتتاح کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی لوگوں کی محبت، سادگی، خلوص، کشادہ دلی اور مہمان نوازی کو وہ کبھی بھلا نہیں پائیں گے۔

ڈی ڈبلیو: آپ کو وادی ہنزہ کی کس چیز نے اس قدر متاثر کیا کہ آپ بار بار اِن کٹھن راستوں اور دشوار گزار وادیوں کا سفر کرتے رہے؟

بنوا سنیسن : سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ فوٹو گرافی کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں دنیا کے مختلف حصوں میں کافی سفر کیا کرتا تھا۔ اپنے ایک فوٹو گرافی کے پراجیکٹ کے سلسلے میں مجھے کسی نئی جگہ کا انتخاب کرنا تھا اور اس جگہ کی تصاویر اپنی کلاس میں پیش کرنا تھیں۔ میں بچپن ہی سے فلک بوس پہاڑوں پر جانے کے خواب دیکھتا تھا۔ جب میں نے لفظ ہمالیہ پڑھا تو میرے دل میں جیسے کچھ تاریں جھنجھنا اٹھیں۔ میں نے جغرافیہ کی کتاب اٹھائی اور نقشہ دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ ہمالیہ دراصل پاکستان سے شروع ہوتا ہے۔ ہم ہمالیہ کے اس حصے سے بخوبی واقف ہیں جو بھارت، نیپال، تبت اور بھوٹان میں ہے اور جہاں بدھ مت کے پیروکار بستے ہیں لیکن جب ہم ہمالیہ کے پاکستانی حصے کو دیکھتے ہیں، جہاں مسلمان آباد ہیں، وہاں کی زیادہ معلومات عام نہیں ہیں۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ میں پاکستان جاؤں گا۔

ڈی ڈبلیو: آپ نے کریم آباد جیسے نسبتاﹰ گنجان آباد علاقوں کو بھی دیکھا اور دور دراز کی ناقابل رسائی وادیوں تک بھی پہنچے۔ ان علاقوں کے سفر کے دوران آپ کو جو تجربات پیش آئے ان کی روشنی میں آپ کے ذہن میں پاکستان کے لوگوں کے بارے میں کیا تاثرات قائم ہوئے؟

بنوا سنیسن : درحقیقت میرے تاثرات بہت مثبت ہیں۔ آپ جب یہ تصاویر دیکھتے ہیں تو آپ کو دنیا کی چند بلند و بالا پہاڑی چوٹیوں اور وادیوں کا حسن اور دلکشی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن سچ پوچھیں تو پاکستان کا سفر کرنے کا بنیادی مقصد یہ پہاڑ نہیں تھے۔ میں نے جیسے ہی پاکستان میں قدم رکھا، میں محبت کرنے والے اور کشادہ دل لوگوں سے ملا جنہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور ایسی اپنائیت دکھائی جو میں نے دوسرے ممالک میں نہیں دیکھی۔ پاکستانی لوگ میرے ساتھ ہمیشہ بہت احترام اور چاہت سے پیش آئے اور جب کبھی بھی مجھے مدد کی ضرورت پیش آئی انہوں نے کشادہ مسکراہٹ کے ساتھ میری مدد کی۔ سچ پوچھیں تو میرے پاکستان بار بار جانے کی ایک وجہ پاکستانی لوگوں کا حسن سلوک تھا۔ اور میں یہ کہوں گا کہ پہاڑوں، وادیوں، کوہ پیمائی اور فوٹو گرافی کے علاوہ پاکستان کے لوگوں اور ثقافت نے مجھے بہت متاثر کیا۔

جب ہم ہمالیہ کے پاکستانی حصے کو دیکھتے ہیں، جہاں مسلمان آباد ہیں، وہاں کی زیادہ معلومات عام نہیں ہیں، بنوا سنیسنتصویر: DW/S. Raj

ڈی ڈبلیو: جب ہم مغربی ممالک میں اس نوعیت کے علاقوں کی سیاحت کرتے ہیں تو ہمیں خاصی سہولیات اور تعمیر و ترقی دکھائی دیتی ہے لیکن پاکستان جیسے علاقوں میں یہ سہولیات نظر نہیں آتیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر ریاست توجہ دے تو ان علاقوں میں سیاحت میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے؟

بنوا سنیسن: میں امور سیاحت کا ماہر نہیں ہوں اور میرے نزدیک یہ ایک خاصا پیچیدہ معاملہ ہے لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ پاکستان میں سیاحت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مغربی ملکوں سے جو سیاح قدرتی مناظر دیکھنے نکلتے ہیں وہ سہولیات تو چاہتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ خالص قدرت اور قدیم ثقافتوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ ایک مشکل سوال ہے کیونکہ رہائش وغیرہ کے حوالے سے بہتر سہولیات کا یقینی طور پر فائدہ ہو گا اور ان علاقوں کے حقائق سے آگاہی بھی سیاحوں کے لیے فائدہ مند ہو گی کیونکہ بعض علاقے اور راستے بہت خطرناک ہیں جہاں ریاست کی جانب سے ضروری ہدایات اور مدد ان کی حفاظت کے حوالے سے اہم ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کے سیاح خالص قدرت کا مشاہدہ کرنے آتے ہیں اور ان کے لیے سہولیات اتنی اہم نہیں ہوتیں۔

ڈی ڈبلیو: آپ نے اپنی تصویروں کی نمائش میں اپنے گائیڈ کی تصویر بھی شامل کی ہے، اس بارے میں آپ کچھ تفصیل بتائیں گے؟

بنوا سنیسن: جی یقیناﹰ، میرے لیے یہ بہت اہم تھا کہ میں اس تصویری نمائش کا اختتام اپنے گائیڈ دیدار کریم کی تصویر سے کروں اور اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کروں۔ وادی شمشال کے دشوار گزار راستوں میں وہ میرا بھروسہ مند رہنما تھا۔ وہ میرا بہت ہی اچھا دوست بن گیا اور اس نے ہمیشہ مجھے بہت اچھا مشورہ دیا اور درست رہنمائی کی اور مجھے خطرناک وادیوں میں حادثات سے محفوظ رکھا۔ میں اس کا بہت احسان مند ہوں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں