سن دو ہزار سترہ میں میں برطانوی میگزین ٹائمز ہائر ایجوکیشن نے پچاس نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں سے پوچھا تھا، ’’بنی نوع انسان کے لیے سب سے بڑا خطرہ کون سا ہے؟“ جواب تھا: ’’تیزی سے بڑھتی آبادی اور ماحولیاتی تنزلی۔‘‘
اشتہار
یہ صرف تقریباﹰ پانچ برس پہلے ہی کی بات ہے کہ کیمسٹری، فزکس، طب، نفسیات اور اقتصادیات جیسے شعبوں کے دنیا کے ان درجنوں ماہرین کی بہت بڑی اکثریت کا موقف یہ تھا کہ ”بہت تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور قدرتی ماحول کا انحطاط" ہی انسانیت کے لیے سنگین ترین خطرہ ہے۔ تب ایسا پہلی مرتبہ نہیں کہا گیا تھا۔ آبادی میں تیز رفتار اضافہ اور اس کے ممکنہ مضمرات کی بازگشت گزشتہ چند دہائیوں سے مسلسل سنائی دی رہی ہے۔
اس تناظر میں اقوام متحدہ کی طرف سے ہر سال 11 جولائی کو منائے جانے والے آبادی کے عالمی دن کا مقصد بھی یہی ہے کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل، فیملی پلاننگ اور انسانی حقوق سے متعلق آگاہی پھیلائی جائے۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک
اپنے ہاں پچھلی مردم شماری کے مطابق تقریباً 20 کروڑ 77 لاکھ سے زائد بفوس پر مشتمل پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک ہے۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو کے مطابق اس فہرست میں شامل پہلے چار بڑے ممالک یعنی چین، بھارت، امریکہ اور انڈونیشیا کے مقابلے میں پاکستان میں آبادی میں اضافے کی رفتار سب سے زیادہ ہے۔ اگر 3.1 فیصد کی سالانہ شرح سے پاکستانی شہریوں میں افزائش نسل کا سفر اسی طرح جاری رہا، تو 2045ء تک اس جنوبی ایشیائی ملک کی آبادی موجودہ سے بھی دو گنا ہو جانے کا خدشہ ہے۔
اپنے ثقافتی خد و خال اور سماجی ڈھانچے میں ایران اور بنگلہ دیش سے زیادہ مختلف نہ ہونے کے باوجود پاکستان ان دونوں مسلم اکثریتی ممالک کی طرح آبادی کو کنٹرول کرنے کی کسی قابل فخر تاریخ کا حامل نہیں۔ 1971ء میں بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً سات کروڑ جبکہ پاکستان کی آبادی لگ بھگ چھ کروڑ تھی۔ پچاس برس بعد بنگلہ دیش کی آبادی 16 کروڑ 74 لاکھ تھی جبکہ پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 70 لاکھ ہو چکی تھی۔ مطلب یہ کہ اس عرصے میں پاکستان میں بنگلہ دیش کی نسبت تقریباً پانچ کروڑ بچے زیادہ پیدا ہوئے۔
ایران میں 1980ء میں فی خاتون 6.5 بچوں کی اوسط سے افزائش نسل جاری تھی جو ورلڈ بینک کی 2020ء کی ایک رپورٹ کے مطابق تب تک کم ہو کر 2.1 بچے رہ گئی تھی۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اب بھی 3.1 بچے فی خاتون کی شرح سے افزائش نسل جاری ہے، جو ماہرین کے الفاظ میں 'خوفناک حد تک بلند‘ شرح ہے۔
آبادی کنٹرول نہ ہونے کی بنیادی وجوہات
اس سوال کے جواب کے لیے ڈی ڈبلیو اردو نے پاکستان کے سب سے بڑے سوشل سیفٹی نیٹ میں گزشتہ تین سال سے بھی زائد عرصے تک تکنیکی اور آپریشنل امور کے انچارج اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز میں کئی منصوبوں کی نگرانی کرنے والے سینئر بیوروکریٹ وقار شیرازی سے بات کی۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تین مختلف سطحوں پر کسی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا۔
”پالیسی سازوں نے عمدہ پالیسیاں اور مؤثر قوانین نہیں بنائے کیوں کہ آبادی کا مسئلہ عوامی مقبولیت سے منسلک نہیں۔ ممکنہ خطرات سے آگاہ کرنے والے ادارے کبھی بھی درست اندازہ نہ لگا سکے، جب بھی مردم شماری ہوئی، مختلف اداروں کے پیش کردہ اعداد و شمار ناقص ہی ثابت ہوئے۔ تیسری ناکامی پالیسیوں کا عملی نفاذ کرنے والے اداروں کی نچلی سطح پر ناکامی ہے۔‘‘
وقار شیرازی کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں اہم ترین اور بنیادی قدم آگاہی مہم تھی، ”ہم نے ایک عرصے تک مانع حمل ادویات اور کنڈومز کے اشتہارات دیکھے، جنہوں نے وسیع پیمانے پر آگاہی پھیلائی۔ لیکن پھر اچانک ایسے اشتہارات نظر آنا بند ہو گئے۔‘‘ انہوں نے کہا، ''آگاہی کا براہ راست تعلق تعلیم سے ہے جس کے آبادی پر ہونے والے اثرات سے انکار قطعاﹰ ممکن نہیں۔‘‘
اشتہار
خواتین میں شرح خواندگی بھی اہم ترین عوامل میں سے ایک
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے دو ہزار سترہ اور دو ہزار اٹھارہ کی رپورٹ کے مطابق ملک کی ایسی خواتین جنہوں نے بالکل کوئی تعلیم حاصل نہیں کی، ان کے ہاں میں بچوں کی پیدائش کی فی کس اوسط 4.2 بچے بنتی ہے جبکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین میں یہی اوسط 2.6 بچے فی خاتون رہی۔
سن 2030 میں پاکستانی شہروں کی متوقع آبادی
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2047 میں پاکستان کے دیہی اور شہری علاقوں میں آباد انسانوں کی تعداد برابر ہو جائے گی۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے بارہ برس بعد پاکستانی شہروں کی آبادی کتنی ہو گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1- کراچی
کراچی قیام پاکستان کے بعد سے اب تک آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ سن 2018 میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ چون لاکھ ہے جو سن 2030 تک دو کروڑ بتیس لاکھ ہو جائے گی۔ اقوام متحدہ کے مطابق تب کراچی آبادی کے اعتبار سے دنیا کا تیرہواں سب سے بڑا شہر بھی ہو گا۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
2- لاہور
پاکستانی صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور ایک کروڑ سترہ لاکھ نفوس کے ساتھ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ سن 2030 تک لاہور کی آبادی قریب دو کروڑ ہو جائے گی۔ پچاس کی دہائی میں لاہور کے شہریوں کی تعداد آٹھ لاکھ چھتیس ہزار تھی اور وہ تب بھی پاکستان کا دوسرا بڑا شہر تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
3- فیصل آباد
فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے اور بارہ برس بعد بھی آبادی کے اعتبار سے یہ اسی نمبر پر رہے گا۔ تاہم فیصل آباد کی موجودہ آبادی 3.3 ملین ہے جو اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سن 2030 تک قریب پانچ ملین ہو جائے گی۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
4- پشاور
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی موجودہ آبادی بھی دو ملین سے کچھ زائد ہے اور اس وقت یہ ملک کا چھٹا بڑا شہر بھی ہے۔ تاہم سن 2030 میں اس شہر کی آبادی قریب تینتیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہو گی اور یہ ملک کا چوتھا بڑا شہر بن جائے گا۔
تصویر: DW/F. Khan
5- گوجرانوالہ
سن 1950 میں گوجرانوالہ ایک لاکھ اٹھارہ ہزار کی آبادی کے ساتھ پاکستان کا نواں سب سے بڑا شہر تھا تاہم اب یہاں دو ملین سے زائد لوگ بستے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بارہ برس بعد اس شہر کی آبادی بتیس لاکھ چونسٹھ ہزار تک پہنچ جائے گی اور یہ ملک کا پانچواں بڑا شہر ہو گا۔
تصویر: FAROOQ NAEEM/AFP/Getty Images
6- راولپینڈی
اکیس لاکھ چھپن ہزار کی آبادی کے ساتھ راولپنڈی پاکستان کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ بارہ برس بعد راولپنڈی کی آبادی تین ملین سے زائد ہو جائے گی لیکن تب یہ ملک کا چھٹا بڑا شہر ہو گا۔ 1950ء میں راولپنڈی کی آبادی دو لاکھ تینتیس ہزار تھی اور تب آبادی کے اعتبار سے یہ ملک کا تیسرا بڑا شہر تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/PPI
7- ملتان
ملتان جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا اور ملک کا ساتواں بڑا شہر ہے جس کی موجودہ آبادی قریب دو ملین ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سن 2030 میں ملتان کی آبادی قریب انتیس لاکھ ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/SS Mirza
8- حیدر آباد
صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدر آباد سترہ لاکھ بیاسی ہزار نفوس کے ساتھ اس برس ملک کا آٹھواں بڑا شہر ہے۔ سن 2030 تک اس شہر کی آبادی چھبیس لاکھ تیس ہزار ہو جائے گی اور وہ تب بھی ملک کا آٹھواں بڑا شہر ہی ہو گا۔
تصویر: Imago/Zumapress
9- اسلام آباد
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی موجودہ آبادی ایک ملین سے زائد ہے تاہم اگلے بارہ برسوں میں سولہ لاکھ بہتر ہزار نفوس کے ساتھ یہ شہر ملک کا نواں بڑا شہر بن جائے گا۔ رواں صدی کے آغاز میں اسلام آباد کے شہریوں کی تعداد پانچ لاکھ انہتر ہزار تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Reza
10- کوئٹہ
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی آبادی رواں برس ہی ایک ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ بارہ برس بعد کوئٹہ کی آبادی سولہ لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ جب کہ سن 1950 میں کوئٹہ کی آبادی 83 ہزار تھی۔
تصویر: shal.afghan
11- بہاولپور
پاکستانی صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر بہاولپور کی آبادی بھی اگلے چند برسوں میں ایک ملین سے زیادہ ہو جائے گی اور سن 2030 تک یہاں کی آبادی بارہ لاکھ چھیالیس ہزار نفوس تک پہنچ جائے گی۔ رواں برس کی آبادی سات لاکھ چھیانوے ہزار ہے جب کہ 1950 میں بہاولپور کی آبادی محض بیالیس ہزار تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
12- سیالکوٹ
صوبہ پنجاب ہی کے شہر سیالکوٹ کی آبادی بھی اگلے بارہ برسوں میں ایک ملین سے زائد ہو جائے گی۔ اس برس تک سیالکوٹ چھ لاکھ چھہتر ہزار نفوس کے ساتھ ملک کا تیرہواں بڑا شہر ہے۔ 1950ء میں سیالکوٹ کی آبادی ایک لاکھ پچپن ہزار تھی۔
تصویر: Reuters
13- سرگودھا
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی صوبہ پنجاب کی آبادی بھی سن 2030 میں ایک ملین سے کچھ کم (نو لاکھ نوے ہزار) تک پہنچ جائے گی۔ اس برس یعنی 2018ء میں سرگودھا کی آبادی چھ لاکھ 77 ہزار ہے اور یہ ملک کا بارہواں بڑا شہر ہے۔ سن 1950 میں یہاں صرف چوہتر ہزار شہری مقیم تھے۔
تصویر: Reuters/Stringer
14- لاڑکانہ
صوبہ سندھ ہی کے شہر لاڑکانہ کی موجودہ آبادی پانچ لاکھ چھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے جو اب سے بارہ برس بعد سات لاکھ بیاسی ہزار تک پہنچ جائے گی۔ 1950 میں لاڑکانہ کی آبادی محض تینتیس ہزار تھی۔
تصویر: AP
15- سکھر
سن 2030 میں پاکستان کے صوبہ سندھ میں واقع شہر سکھر کی آبادی سات لاکھ ساٹھ ہزار تک پہنچ جائے گی۔ سن 1950 میں اس شہر کی آبادی محض چھہتر ہزار نفوس پر مشتمل تھی جب کہ رواں برس سکھر کی آبادی پانچ لاکھ چودہ ہزار ہے۔
تصویر: DW
15 تصاویر1 | 15
اسی طرح بلند شرح تعلیم والے علاقوں میں مانع حمل ذرائع کا استعمال بھی زیادہ ہے۔ اس سروے کے مطابق پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں مانع حمل ذریعے کے طور پر کنڈومز کا استعمال 18.7 فیصد ہے جبکہ فاٹا کہلانے والے سابقہ قبائلی علاقوں میں یہی تناسب صرف 2.9 فیصد بنتا ہے۔
مقامی سطح پر ریاستی اداروں کی ناکامی
قومی آبادی سے متعلق پالیسیوں کے عملی نفاذ کے ذمے دار اداروں کی نچلی ترین یا مقامی سطح پر ناکامی کی وضاحت کیسے کی جا سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں وقار شیزاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب سے یہ شعبہ صوبائی حکومتوں کے سپرد ہوا ہے، تب سے صورتحال مزید سنگین ہو چکی ہے۔ ہر ضلع میں بہبود آبادی کے ذمے دار ادارے موجود تو ہیں، لیکن وہ عوامی آگہی مہموں، مقامی سطح پر عوامی اجتماعات یا عام شہریوں کو تحریک دینے کے کام سے حتی المقدور اجتناب کرتے ہیں۔‘‘
وقار شیزاری کہتے ہیں، ''اپنی روزمرہ کی ذمہ داریاں انجام دیتے ہوئے ہم مسلسل اس مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک تو مانع حمل ذرائع اور مصنوعات اب بہت ہی کم تعداد میں درآمد کی جا رہی ہیں، دوسرے یہ کہ ضلعی سطح پر بھی اہداف غیر متعین ہی ہیں۔ حالانکہ اہداف، نگرانی اور جانچ پڑتال کے بغیر کوئی بھی منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘‘ پاپولیشن افیئرز کے اس ماہر کے مطابق، ''یہ امر بھی افسوس ناک ہے کہ جو تھوڑی بہت مانع حمل مصنوعات ضلعی سطح تک پہنچتی ہیں، ان کی مؤثر تقسیم نہ ہونا یا ان کا بغیر استعمال کے ہی ضائع ہو جانا بھی اب معمول بن چکا ہے۔‘‘
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
فرانس: 57.2 لاکھ
تصویر: AP
جرمنی: 49.5 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
برطانیہ: 41.3 لاکھ
تصویر: picture-alliance/empics/D. Dawson
اٹلی: 28.7 لاکھ
تصویر: Getty Images for Les Benjamins/S. Alemdar
ہالینڈ: 12.1 لاکھ
تصویر: AP
اسپین: 11.8 لاکھ
تصویر: picture-alliance/AA/E. Aydin
بیلجیم: 8.7 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Sadones
سویڈن: 8.1 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wiklund
بلغاریہ: 7.9 لاکھ
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
یونان: 6.2 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
10 تصاویر1 | 10
آبادی کی بحث میں مذہب کا حوالہ
محکمہ بہبود آبادی میں گزشتہ 18 برسوں سے ایک فیلڈ ورکر کی حیثیت سے فعال خوشاب کی رخسانہ بی بی وقار شیزاری کے موقف سے مکمل اتفاق نہیں کرتیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ہم معاشرے میں آگاہی پھیلانے اور عوام سے عملی تعاون کو ممکن بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ لیکن عام شہریوں کے نزدیک ہمارا کام ناپسندیدہ اور بے حیائی پر مبنی ہے۔ فلیڈ ورکرز کی حیثیت سے ہم لوگوں کو مانع حمل مصنوعات مہیا تو کر سکتے ہیں لیکن ان کے ذہن سے یہ نہیں نکال سکتے کہ ان کی سوچ کے مطابق یہ مبینہ طور پر غیر اسلامی ہے۔‘‘
وزارت بہبود آبادی کے سابق ترجمان الطاف پرویز ہاشمی نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت میں 'روایتی اسلامی معاشرے‘ کو آبادی کے قابو میں نہ آنے کی بڑی وجہ قرار دیا۔
وہ کہتے ہیں، ''ہمارے ہاں تو آج تک یہی طے نہیں ہو سکا کہ آبادی کو کنٹرول کرنا اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ مساجد کے منبروں سے جو باتیں کہی جاتی ہیں، وہ عام لوگوں پر اثر کرتی ہیں۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ پاکستان میں مانع حمل ذرائع اور مصنوعات کا استعمال ناجائز اور غیر اسلامی سمجھا جاتا ہے۔‘‘
پھیلتے شہر، چیلنج کیا اور علاج کیا؟
شہروں کی آبادی رفتہ رفتہ بڑھتی جا رہی ہے اور مسقتبل میں یہ تعداد اور بھی زیادہ ہو گی۔ مگر کیا شہر اس کے لیے تیار ہیں؟
تصویر: Roslan Rahman/AFP/Getty Images
بڑھتے شہروں کے بڑھتے مسائل
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سن 2050 تک دنیا کی آبادی میں کئی ارب کا اضافہ ہو جائے گا اور اس آبادی کا قریب دو تہائی شہروں میں مقیم ہو گا۔ اس لیے شہروں میں انفراسٹرکچر اور خدمات کے شعبوں میں ترقی لانا ہو گی، تاکہ رہائش، پانی، سوریج، روزگار، تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ کے معاملات درست رہیں۔
تصویر: Getty Images
بڑھتی کچی بستیاں
کچھ شہروں کی آبادی میں تیز رفتار اضافے کی وجہ سے مضافاتی بستیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس تصویر میں جنوبی افریقہ کے علاقے کھیلیتشا کے قریب ایک کچی بستی دیکھی جا سکتی ہے۔ افریقہ، ایشیا اور جنوبی امریکا میں لاکھوں افراد ایسی ہی بستیوں میں آباد ہیں، جہاں پینے کے پانی اور نکاسیء آب کے انتظامات نہیں۔
تصویر: Getty Images/D. Kitwood
سبز عمارات
اربنائزیشن کچھ اچھے امکانات بھی مہیا کرتی ہے۔ کم تنخواہوں والے افراد کے لیے لاس اینجلس کے قریب سینٹا مونیکا کا علاقہ ماحول دوستی کی ایک عمدہ مثال ہے، جہاں مرکز شہر کے قریب کم قیمت اپارٹمنٹس مل جاتے ہیں۔ کولاریڈو عدالت امریکا میں توانائی کی بچت کرنے والی عمارات میں سے ایک تھی۔
تصویر: picture alliance/Arcaid/J.-E. Linden
صاف پانی
صاف پانی کی رسائی یقینی بنانے کے لیے مختلف شہر روایتی طور پر زیرزمین پانی یا دریاؤں کا سہارا لیتے ہیں۔ مستقبل میں شہروں کے لیے پائیدار، قابل اعتبار اور مناسب طریقے سے تمام شہریوں تک صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ مختلف بھارتی شہر صاف پانی کی رسائی کے مسائل سے دوچار ہیں۔
تصویر: DW/M. Krishnan
شہری زراعت
ترقی پزیر ممالک میں شہر بڑھنے سے قلیل وسائل پر شدید دباؤ پڑ رہا ہے۔ غریبوں کے لیے صحت بخش غذا کا حصول ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یوگینڈا کے دارالحکومت کمپالا میں شہری زراعت کے ایک پروجیکٹ کی مدد سے مختلف خاندان اپنے لیے خوراک کا حصول خود یقینی بنا رہے ہیں، جب کہ اضافی اجناس بیچ دی جاتی ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
سائیکل پر
شہروں میں ٹرانسپورٹ کو منظم نظام لوگوں کو کام یا اسکولوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، مگر شہری آبادی میں اضافے کی وجہ سے ٹریفک میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ کوپن ہیگن میں اسی تناظر میں سائیکلوں کا حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور وہاں لوگ کاروں کی بجائے سائیکلیں چلاتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture alliance / PIXSELL
بگوٹا کی بسیں
سن 2000ء سے کولمبیا کا دارالحکومت بگوٹا ٹریفک کے مسائل سے نمٹنے کی کوشش میں ہے اور اس سلسلے میں ٹرانسمیلینیو نامی بس نظام متعارف کرایا گیا ہے۔ بھری ہوئی بسوں پر تنقید کے باوجود یہ بسیں روزانہ دو ملین افراد کی نقل و حمل میں کارگر ثابت ہو رہی ہے۔ بگوٹا حکومت اب ان ڈیزل بسوں کی جگہ ہائبرڈ اور الیکٹرک بسیں چلانا چاہتی ہے۔
تصویر: Guillermo Legaria/AFP/Getty Images
کوڑے کا حل
کوڑا کرکٹ سے نمٹنا بھی اہم شہری مسئلہ ہے۔ سویڈش شہر کچرے سے بجلی پیدا کر رہے ہیں، جب کہ اس کچرے کا صرف ایک فیڈ زمینوں میں دفن کیا جاتا ہے۔ سان فرانسِسکو سن 2020ء تک کچرے کی پیداوار ختم کرنا چاہتا ہے، کیوں کہ اب وہ کچرے کو پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے بجلی تیار کرنے پر میں استعمال کرے گا۔
تصویر: Envac/Image Bank Sweden
فضائی آلودگی
شہر فضائی آلودگی کا اہم منبع ہیں اور کئی کا تو حال ہی برا ہے۔ میکسیکو سٹی ایسے ہی شہروں میں سے ایک ہے، جو ہر وقت دھند میں رہتا ہے۔ رواں سال کے آغاز پر فضائی آلودگی کی حالت یہ تھی کہ حکام کو میکسیکو سٹی کی سڑکوں پر گاڑیوں پر پابندی عائد کرنا پڑی، جب کہ عوام سے کہا گیا کہ وہ گھروں ہی میں رہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Guerrero
دھواں کھانے والی دیواریں
میکسیکو ہی میں رواں سال کے آغاز پر ’ڈرائیو مت کیجیے‘ نامی ہدایات نافذ کرنے کے بعد شہر کے رہائشیوں کو گاڑیاں شہر سے باہر کھڑی کرنا پڑیں۔ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ شہر میں درخت لگانے کی مہم اور مختلف ہسپتالوں میں دھواں جذب کرنے والی ٹائلیں تک لگانے جیسی کاوشیں کی گئیں۔
تصویر: Alejandro Cartagena
رہنما شہر
شہر ضرر رساں گیسوں کے 70 فیصد کے ذمہ دار ہیں۔ کوپن ہیگن، وینکوور، سویڈش مالمو اور چند دیگر شہر ان گیسوں کے اخراج میں کمی کرنے والوں میں سرفہرست ہیں۔ جنوبی جرمن شہر فرائی برگ نے بھی اس سلسلے میں اہم اقدامات کیے ہیں اور ماحول دوست توانائی کے شعبے میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ہے۔
تصویر: Stadt Freiburg im Breisgau
سبز شہر
سبز علاقے شہروں کے لیے لازم ہیں۔ یہ صرف نگاہ کو اچھے لگنے اور لوگوں کے لیے آرام گاہیں نہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ حدت میں کمی کے موجب بھی ہیں۔ گنجان آباد ہونے کے باوجود سنگاپور نے اب تک شہر کا نصف حصہ درختوں کے لیے مختص رکھا ہے۔ اسی لیے یہ شہر ایشیا کے گرین سٹی انڈیکس میں سرفہرست ہے۔
تصویر: Roslan Rahman/AFP/Getty Images
12 تصاویر1 | 12
انہوں نے آبادی میں اضافے کی ایک دوسری مگر اہم سماجی وجہ یہ بھی بتائی کہ پاکستان میں لڑکیوں کی پیدائش کے مقابلے میں لڑکوں کی پیدائش کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ''خواہش یہی ہوتی ہے عام شہریوں کی اکثریت کی۔ جب تک لڑکا یا لڑکے پیدا نہیں ہوں، بچے پیدا کیے جانا عام سوچ ہے۔ اس لیے جب تک عوام میں شعور پیدا نہیں ہو گا، یہ طرز عمل نہیں رکے گا۔‘‘
پاکستان اتنی بڑی آبادی کا بوجھ برداشت کر سکتا ہے؟
وقار شیرازی کہتے ہیں کہ مستقبل کی پلاننگ کے سلسلے میں جب بھی یہ سوال مختلف اجلاسوں میں زیر بحث آتا ہے، پاکستانی فیصلہ سازوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں، ”مستقبل میں اتنی بڑی آبادی کے لیے خوراک، پانی، تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا موجودہ اقتصادی بحرانی صورتحال میں تو بڑی دور کی بات ہے، ایسا کرنا تو تب بھی ممکن نہیں ہو گا جب اگر مثال کے طور پر اقتصادی ترقی کی شرح چار فیصد سے بڑھ کر 20 بھی ہو جائے۔‘‘
الطاف پرویز ہاشمی کا کہنا ہے، ''شہری اور دیہی علاقوں میں آبادی کا توازن بگڑ رہا ہے، جس کی قیمت ماحولیاتی تباہی اور تنزلی اور خوراک کے بحران کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہی ہے۔‘‘
اگلے بیس برسوں میں مسلمان مائیں سب سے زیادہ بچے جنم دیں گی
دنیا بھر میں اس وقت سب سے زیادہ بچے مسیحی مائیں جنم دیتی ہیں۔ لیکن امریکی ریسرچ سینٹر ’پیو‘ کے ایک تازہ ترین آبادیاتی جائزے کے مطابق آئندہ دو عشروں میں مسلمان خواتین سب سے زیادہ بچے پیدا کریں گی۔
تصویر: Reuters/Muhammad Hamed
مسیحی مائیں دوسرے نمبر پر
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق مسیحی باشندوں کی آبادی میں کمی کی ایک وجہ یورپ کے بعض ممالک میں شرحِ اموات کا شرحِ پیدائش سے زیادہ ہونا ہے۔ اس کی ایک مثال جرمنی ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
مسلم آبادی میں اضافہ
پیو ریسرچ سینٹر کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اگر عالمی آبادی میں تبدیلی کا یہ رجحان اسی طرح جاری رہا تو رواں صدی کے آخر تک دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد مسیحی عقیدے کے حامل انسانوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Johnson
مسلم اور مسیحی آبادیوں میں شرحِ پیدائش میں فرق
پیو ریسرچ سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق ان دونوں مذاہب کی آبادیوں میں شرح پیدائش کے لحاظ سے سن 2055 اور سن 2060 کے دوران 60 لاکھ تک کا فرق دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ سن 2060 تک مسلمان دنیا کی مجموعی آبادی کا 31 فیصد جبکہ مسیحی 32 فیصد ہوں گے۔
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images
سب سے بڑی مذہبی برادری
پیو ریسرچ سینٹر کا یہ جائزہ اس کے سن 2015 میں شائع کیے گئے ایک تحقیقی جائزے ہی کی طرز پر ہے۔ سن 2015 میں اس مرکز نے کہا تھا کہ آنے والے عشروں میں مسلم آبادی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والی بڑی مذہبی برادری بن جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Nagori
سب سے زیادہ بچے
سن 2010 سے سن 2015 کے درمیان دنیا بھر میں جتنے بچے پیدا ہوئے، اُن میں سے 31 فیصد بچوں نے مسلمان گھرانوں میں جنم لیا تھا۔ دو سال قبل پیو سینٹر کے ایک جائزے میں بتایا گیا تھا کہ سن 2050 تک مسلمانوں اور مسیحیوں تعداد تقریباﹰ برابر ہو جائے گی۔
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images
دیگر مذاہب آبادی کی دوڑ میں پیچھے
ہندوؤں اور یہودیوں سمیت دیگر مذاہب کے پیروکار انسانوں کی کُل تعداد میں سن 2060 تک اضافہ تو ہو گا تاہم یہ عالمی آبادی میں تیزی سے پھیلنے والے مذاہب کے افراد کی تعداد میں اضافے کے تناسب سے کم ہو گا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
6 تصاویر1 | 6
دیہی اور شہری آبادی کے تناسب کا موازنہ
پاکستان میں 1955ء میں ملک کی صرف 19 فیصد آبادی شہروں میں رہتی تھی۔ مسلسل اضافے کے بعد 2020ء میں یہی شرح 35 فیصد یو چکی تھی۔ ماہرین کے مطابق 2055ء تک پاکستان میں شہری اور دیہی علاقوں کی آبادی کا تناسب برابر ہو جائے گا۔ تب 50 فیصد پاکستانی شہروں میں رہ رہے ہوں گے اور اتنے ہی دیہی علاقوں میں۔
الطاف پرویز ہاشمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بڑھتی ہوئی آبادی کی رہائشی ضروریات کے پیش نظر زرعی زمینوں کی جگہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ جب ایسا ہو گا تو کھانے کے لیے کافی گندم کہاں سے لائیں گے؟" پاکستان کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں، ٹریفک کا رش، ہسپتالوں اور سکولوں کی ناکافی تعداد، پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب سے جڑے مسائل شہریوں کا جینا حرام کر چکے ہیں۔ ماحولیاتی تباہی اور درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ بھی اپنی جگہ ہیں۔ تو اگر ہم ملک کی موجودہ آبادی کی بنیادی ضروریات اس وقت بھی پورا نہیں کر سکتے، تو آنے والے کل میں ہم کیا کریں گے؟"
وقار شیرازی تنبیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''بے ہنگم آبادی کا پھیلتا ہوا سیلاب پورے سماجی ڈھانچے کو بہا کر لے جائے گا۔ اس کے سامنے ابھی سے کوئی بند نہ باندھا گیا، تو پھر بہت دیر ہو جائے گی۔ پھر یہ مسئلہ ہم سے بالکل حل نہیں ہو پائے گا۔ اس لیے آبادی میں بہت تیز رفتار اضافے کے کے اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔"