پاکستان کے لیے پہلا ایشین کراٹے میڈل جیتنے والی نرگس ہزارہ
صائمہ حیدر
28 اگست 2018
انڈونیشیا میں جاری ایشین گیمز میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی نرگس ہزارہ نے کراٹے کے مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیت کر نئی تاریخ رقم کی ہے۔ نرگس ایشین مقابلوں میں میڈل جیتنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہیں۔
اشتہار
کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی انیس سالہ ایتھلیٹ نرگس ہزارہ نے جب اٹھارویں ایشیائی مقابلوں میں پاکستان کے لیے کراٹے کا پہلا کانسی کا تمغہ حاصل کیا تو یہ نہ صرف خود اُن کے لیے بلکہ اُن کے ملک اور خاندان کے لیے بھی فخر و مسرت کے لمحات تھے۔ نرگس نے یہ میڈل نیپال کی ریتا کارکی کو ہرا کر اپنے نام کیا۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں نرگس ہزارہ نے کراٹے کے کھیل سے اپنے لگاؤ اور شوق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کے والد کو اسپورٹس میں بہت دلچسپی تھی اور یہی وجہ تھی کہ صرف پانچ برس کی عمر ہی میں نرگس کو مارشل آرٹس کی ٹریننگ کے لیے کلب میں داخل کرا دیا گیا تھا۔
نرگس کا کہنا تھا،’’ میں نے مارشل آرٹس کی ٹریننگ سن 2005 سے شروع کی اور اس کے بعد سن 2010 میں، میں نے ’ہزارہ شوٹوکن کراٹے اکیڈمی‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔ چینی فلموں میں کراٹے سے متعلق فلمیں دیکھ کر میرا شوق اس کھیل کے لیے اور بھی بڑھا اور یوں میں نے پورے جذبے سے اسے سیکھنا شروع کر دیا۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ بلوچستان جیسے پسماندہ اور قدامت پسند صوبے اور بالخصوص ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے کے باعث ایتھلیٹ بننے کا سفر آسان نہ رہا ہو گا، نرگس کا کہنا تھا کہ ایشین گیمز میں کانسی کے تمغے تک کا سفر مشکلات سے بھر پور تھا۔ نرگس کے بقول ایک تو لوگ خواتین کو اسپورٹس میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا ہی نہیں چاہتے اور دوسرے ہزارہ برادری کا فرد ہونے کے سبب، جسے ایک عرصے سے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، بھی انہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔
نرگس ہزارہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اُن کے رشتہ دار اُن کے مارشل آرٹس میں آنے کے حق میں نہیں تھے لیکن اُن کے خاندان نے ہمیشہ اُن کا ساتھ دیا۔ نرگس نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے مزید کہا،‘‘ ہزارہ برادری کا فرد ہونے کے سبب کسی بھی مقابلے کے لیے جاتے ہوئے ہمیشہ مار دیے جانے کا خوف رہتا تھا۔ جب بھی میں کراٹے کلب یا کسی مقابلے میں شرکت کے لیے جاتی، میرے گھر والے بہت پریشان ہوا کرتے لیکن میں نے ہر خوف کا مقابلہ کیا اور کبھی ہمت نہیں ہاری۔‘‘
نرگس کا کہنا ہے کہ خواتین کو کھیل کے میدان میں مناسب مواقع دینے کے لیے پاکستانی حکومت کی جانب سے زیادہ سرپرستی درکار ہے۔ خواتین کو غیر ملکی کوچز اور بیرونی ممالک میں کھیلنے کے مزید مواقع ملنے چاہییں۔
بطور ایتھلیٹ نرگس اپنے کوچ غلام علی ہزارہ کو اپنا آئیڈیل مانتی ہیں جو خود بھی جنوب ایشیائی مقابلوں میں تین بار گولڈ میڈل حاصل کر چکے ہیں۔
نرگس ہزارہ نے لڑکیوں کے نام پیغام میں کہا،’’ آپ خود کو کمزور نہ سمجھیں اور گھروں تک محدود نہ کریں۔ باہر نکلیں اور اپنے خوابوں کو سچ کرنے کے لیے خوب محنت کریں۔ دنیا آپ کی ہو گی۔‘‘
پاکستانی خواتین کوہ پیماؤں نے مشکل اور کٹھن چوٹی سر کر لی
پاکستان میں پہلی مرتبہ خواتین کوہ پیماؤں کی ٹیم نے گلگت بلتستان کی شمشال وادی کی ایک بلند اور مشکل چوٹی کو سر کیا ہے۔ اس ٹیم کا مقصد خواتین میں خود اعتمادی پیدا کرنا اور انہیں کٹھن کھیلوں کی طرف راغب کرنا ہے۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پاکستانی خواتین کوہ پیما
خواتین کوہ پیماؤں کی اس مہم جوئی کا اعلان پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کی جانب سے سوشل میڈیا پرکیا گیا تھا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اس مہم کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی۔ جسمانی فٹنس کی بنیاد پر چارخواتین کو اس ٹیم کا حصہ بننے کے لیے چنا گیا۔ ماؤنٹ ایورسٹ، کے ٹو سمیت دنیا کے سات براعظموں کے سات بلند ترین پہاڑ سر کرنے والی پاکستانی کوہ پیما ثمینہ بیگ نے اس مہم جوئی کی سربراہی کی۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
خواتین میں خود اعتمادی پیدا کرنا
اس ٹیم میں امریکی اور ناروے کی خواتین کوہ پیما بھی شامل تھیں۔ پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے مطابق ان کی شمولیت کا مقصد پاکستانی اور بین الاقوامی کوہ پیماؤں کے درمیان صلاحیتوں اور معلومات کا تبادلہ تھا۔ خواتین کی اس ٹیم نے شمشال گاؤں کی گوجریو وادی میں ایک کٹھن اور پانچ ہزار میٹر سے بلند پہاڑ’ بوئیسوم پاس‘ کو سر کیا۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پانچ سے چھ گھنٹے کی مسافت
کوہ پیمائی کے پہلے دن شمشال گاؤں سے خواتین نے پانچ سے چھ گھنٹے کی مسافت طے کی۔ ٹیم نے پہلا قیام سطح سمندر سے 4100 میٹر بلند ایک مقام پر کیا۔ یہاں ایک دن قیام کے بعد اس ٹیم نے سطح سمندر سے 4700 میٹر بلند مقام تک کوہ پیمائی کی۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
خراب موسم اور کٹھن راستے
خراب موسم اور کٹھن راستے کی وجہ سے کچھ خواتین زخمی بھی ہوئیں اور آکسیجن کی کمی کے باعث کچھ خواتین کو سانس لینے میں دقت کا سامنا رہا۔ اس باعث یہ خواتین مزید کوپیمائی جاری نہ رکھ سکیں۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ
بالآخر ٹیم کی چار ارکان بسمہ، کومل، ڈاکٹر سیو اور ثمینہ بیگ نے سطح سمندر سے پانچ ہزار چھ سو میٹر بلند پہاڑی کو سر کر لیا۔ اس مقام پر درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پاکستانی خواتین سخت کھیل میں حصہ لے سکتی ہیں
پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے مطابق خواتین کوہ پیماؤں کی اس ٹیم نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں خواتین کوہ پیمائی جیسے سخت کھیل میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لے سکتی ہیں۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پاکستان میں اسپورٹس معاشرتی اور اقتصادی تبدیلی لا سکتا ہے
پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے شریک بانی مرزا علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اور ان کی بہن ثمنیہ بیگ نوجوانوں، خصوصی طور پر لڑکیوں کی کھیلوں میں شمولیت کو بڑھانا چاہتے تھے اور اسی لیے ’پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ‘ کو قائم کیا گیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں اسپورٹس ایک معاشرتی اور اقتصادی تبدیلی لا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی سوچ اور خیالات کو بھی تبدیل کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Pakistan Youth Outreach
خواتین کے لیے کم مواقع
مرزا علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہمارے معاشرے میں گھروں سے باہر، خصوصی طور پر کھیلوں کے لیے بنائے گٗئے میدانوں میں لڑکیوں کو بہت کم مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ خواتین کوہ پیمائی کی اس مہم کے ذریعے ہم نے خواتین میں خود اعتمادی اور ان میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔