1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے میڈیکل کالجوں میں لڑکیوں کی حکمرانی

21 اپریل 2013

پاکستان کو عام طور پر غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل اور لڑکیوں میں کم شرح خواندگی والے ملک کے طور پر دنیا میں جانا جاتا ہے لیکن یہاں کے میڈیکل کالجز ایک بالکل ہی مختلف منظر پیش کر رہے ہیں۔

تصویر: Fotolia/luchshen

میڈیکل کالجوں میں لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کی خواتین بھی معاشرے میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہیں۔ 

لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد  اب طب کے شعبے میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل 1991 میں میڈیکل کالجوں میں کوٹہ سسٹم، جس میں لڑکوں کے لیے زیادہ نشستیں مختص کی گئی تھیں، ختم ہونے کے بعد شروع ہوا۔ یہ رجحان پاکستان جیسے قدامت پسند ملک میں خواتین کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔  اس پیش رفت کے باوجود خواتین کو درپیش مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں۔  طب کے شعبے میں تعلیم مکمل کرنے کے باوجود، بہت سی خواتین بطور ڈاکٹر کام کرتی نظر نہیں آتی۔  زیادہ تر خواتین کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد جلد شادی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور خاندان کو وقت دینے کی وجہ سے وہ پریکٹس نہیں کر پاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میڈیکل اور ڈینٹل کونسل کے ساتھ رجسٹرڈ  132,988ڈاکٹروں میں خواتین ڈاکٹروں کی تعداد 58,789 ہے۔  28,686 اسپیشلسٹ ڈاکٹروں میں صرف 7,524 خواتین ہیں۔

تصویر: fotolia/Elnur

جنوبی ساحلی شہر کراچی کے Dow Medical Collegeمیں زیر تعلیم لڑکیوں کا کہنا ہے کہ وہ طب کے شعبے میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد پریکٹس ضرور کریں گی۔

کالج کے صحن میں اپنی ساتھی طالبات کے ساتھ کھڑی عائشہ سلطان کا کہنا تھا، ٫میں ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرنا چاہتی ہوں اور میری زندگی کا یہی مقصد ہے۔‘ عائشہ سلطان کا کہنا تھا کہ امتیازی سلوک کی وجہ سے عورتوں کو روزمرہ زندگی میں کافی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔‘

سالوں تک حکومت کی جانب سے میڈیکل کالجوں میں کوٹہ سسٹم رائج رہا، جس کے تحت 80 فیصد نشستیں لڑکوں اور 20 فیصد لڑکیوں کے لیے مختص تھیں۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس کوٹہ سسٹم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ میڈیکل کالجوں میں تمام داخلے میرٹ کی بنیاد پر کیے جائیں۔

اس فیصلے کے بعد  میڈیکل کالجوں میں طالبات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔  پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل مرزا علی اظہر نے کہا ہے کہ پاکستان میں میڈیکل تعلیم حاصل کرنے والوں میں سے لڑکیوں کی تعداد تقریباﹰ 80سے 85 فیصد ہے۔  خبر رساں ادارے اے پی کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان اور  خیبر پختونخواہ  جیسے زیادہ قدامت پسند علاقوں میں  میڈیکل کی تعلیم میں لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے زیادہ ہے۔  لیکن سندھ اور پنجاب میں شعبہء طب کی تعلیم میں لڑکیاں آگے ہیں۔ Dow Medical Collegeمیں تقریباﹰ ستر فیصد لڑکیاں اور تیس فیصد لڑکے زیر تعلیم ہیں۔

میڈیکل کے شعبے میں لڑکیوں کی اکثریت کی ایک اہم وجہ لڑکوں کا بزنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے پرکشش شعبوں میں زیادہ دلچسپی لینا ہے۔ اظہر کے مطابق، پاکستانی معاشرے کی لڑکیاں بہت محنتی اور  تعلیم پر بھرپور توجہ دیتی ہیں۔ ٫٫لڑکے یہ دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر کی ڈگری لینے کے بعد بھی انہیں بہت زیادہ محنت کرنا پڑے گی۔ لڑکے بنیادی طور پر سخت محنت کرنا پسند نہیں کرتے۔‘‘

عمارہ خان کا خواب نیورو سرجن بننے کا ہے اور اس خواب کی تعبیر کے لیے وہ پوری طرح تیار ہیں۔ نیورو سرجن بننے کا فیصلہ عمارہ نے کراچی کے آغا خان ہسپتال میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے کے دوران کیا تھا۔ ٫٫ میں جانتی ہوں کہ میں نے نیورو سرجن ہی بننا ہے اور کچھ نہیں۔‘‘

zh/at(AP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں