1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ کا ناسور

25 ستمبر 2023

پاکستان میں یونان اور لیبیا میں ہونے والے کشتی کے حادثات میں پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کے بعد ملک میں انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ اورافراد کے خلاف ایک منظم کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے۔

Serbien Flüchtlinge versuchen nach Bosnien und Herzegowina zu gelangen
تصویر: Jelena Djukic Pejic/DW

پاکستان میں بجلی اور پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اورمہنگائی کی وجہ سے جہاں عام شہریوں کے لیے گزر بسر مشکل ہوتی جا رہی ہے وہیں اس صورتحال کے پیش نظر بڑی تعداد میں شہری اپنا ملک چھوڑ کربیرون ملک جارہے ہیں۔ گذشتہ سال مختلف شعبوں کے پروفیشنلزکی بڑی تعداد نے اپنے وطن کوخیرباد کہہ دیا۔ بيورو آف اميگريشن اينڈ اوور سيز ايمپلا ئمنٹ سے حاصل کردہ اعداد شمار کے مطابق ، رواں سال کے پہلے آٹھ مہينوں ميں 5لاکھ 40 ہزار 282  پاکستانی باشندوں نے با ضابطہ طور پر بيرون ملک ملازمت کا اندراج کروايا ہے جبکہ ايجنٹوں کے زريعے غير قانونی طريقوں سے بيرون ملک جانے والوں کی تعداد اس میں شامل نہیں ہے۔

ملک کی مخدوش سياسی اور اقتصادی صورتحال ميں ہر عمر کے شہری ، ملک چھوڑنے کے بارے ميں  سنجيدگی سے سوچ رہے ہيں، دوسری طرف یہ رحجان انسانوں کی اسمگلنگ  کے کاروبار کو فروغ دينے کا باعث بن رہا ہے۔

انسانوں کے اسمگلرز کا آسان ہدف

تعلیم یافتہ اورہنرمند طبقہ تو روزگار کے حصول کے لیے قانونی راستہ اختیارکرلیتا ہے لیکن گاؤں دیہات میں رہنے والے کم تعلیم یافتہ اورغير ہنرمند افراد کے لیے قانونی طریقے سے بیرون ملک جانا جوئے شیرلانے کے مترادف ہے۔ ایسے میں بیرون ملک جانے کے خواہشمند افراد غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک بھیجنے والے گروہ اورافراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور جہاں سے ان کی تکلیف اورمصائب کا آغاز ہوجاتا ہے۔ بیرون ملک لے جانے اور روزگار دینے کے خواب دکھا کران لوگوں سے لاکھوں روپے اینٹھ لیے جاتے ہیں اور پھر یہ لوگ ایک کے بعد ایک گروہ کو فروخت کردیے جاتے ہیں۔ لاکھوں روپے ایجنٹ کو دینے کے باوجود اکثر ایسے افراد کے مقدر میں قید ہوتی ہے یا دیارغیر میں موت ان کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔

غیر قانونی تارکین وطن پاکستانی نوجوان تصویر: Jelena Djukic Pejic/DW

 

انسانی اسمگلرز کی ریڈ بک کا اجراء

وفاقی تحقيقاتی ادارہ ،ایف آئی اے سمیت دیگرقانون نافذ کرنے والے اداروں نے مختلف کارروائیوں میں درجنوں ملزمان کو گرفتارکرلیا ہے تاہم اب بھی انسانوں کی اسمگلنگ کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرزکی ریڈ بک جاری کردی ہے۔

اس بُک میں 8 خواتین کا نام بھی شامل ہے۔ 176 صفحات پرمشتمل بارہویں ایڈیشن میں شامل 156 انسانی اسمگلرز کو انتہائی مطلوب قرار دیا گیا ہے جن کے خلاف ہیومن ٹریفیکنگ سرکلز میں متعدد مقدمات درج ہیں۔ ریڈ بک کے مطابق ايف آئی اے لاہور زون کو 20، گوجرنوالہ زون کو 71، فیصل آباد زون کو 12، ملتان زون کو 3 ملزمان مطلوب ہیں جبکہ اسلام آباد زون کو 34، کراچی زون کو 12، بلوچستان اور کے پی کے  زون کو 2.2 انسانی اسمگلرز مطلوب ہیں۔

مہاجرین کی اسمگلنگ، مجرموں کے لیے منافع بخش کاروبار

02:28

This browser does not support the video element.

ایف آئی اے کے مطابق انسانی اسمگلرز کی گرفتاری کے لیے کریک ڈاؤن جاری ہے، انتہائی مطلوب انسانی اسمگلرز کے شناختی کارڈ اورپاسپورٹس بلیک لسٹ کردیے گئے ہیں۔ حکام کے مطابق انسانی اسمگلرزاور اسمگلنگ کے خلاف 5 سالہ نیشنل ایکشن پلان کا قيام عمل ميں لايا گيا تھا۔

 

 گرفتاریوں اور بارڈرز پر سختی کے حوصلہ افزا نتائج

ملک بھر میں ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کے نتیجے میں کئی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں اور بہت سے نیٹ ورکس کو توڑا جاچکا ہے۔ دوسری جانب سرحدوں پرنگرانی اور انسانوں کی اسمگلنگ کے روٹس پرگاڑیوں کی کڑی چیکنگ کے نتیجے میں کوئٹہ اوردیگر روٹس کے ذریعے انسانوں کی اسمگلنگ کی روک تھام میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ تاہم انسانوں کیاسمگلنگ  کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اورمتبادل روٹس کے طور پردبئی اورلیبیا، سمیت دیگرممالک میں بذریعہ پرواز روانگی اورپھروہاں سے یورپ کے لیے غیرقانونی طور پرسمندری اورزمینوں راستوں کا استعمال کیا جارہا ہے ۔

سربیا سے بوسنیا پہنچنے کی غیر قانونی کوششتصویر: Jelena Djukic Pejic/DW

 تارکینِ وطن کے غير قانونی راستے

وفاقی اداروں کا کہنا ہے کہ اب پاکستان سے تار کینِ وطن بيرون ملک غير قانونی راستوں سے جاتے ہیں۔ اور پھر دوسرے ممالک  سے بھی غیر قانونی طور پر یورپ کی طرف نکل جاتے ہیں۔ وفاقی تحقيقاتی ادارہ ،  (ایف آئی اے) کا کہنا ہے کہ ان کے سخت اقدامات کی وجہ سے انسانوں کی اسمگلنگ ميں ملوث گروہوں کو مشکلات پيش آرہی ہيں ، جسکی وجہ سے اب  لوگ ملک سے قانونی طریقوں سے متحدہ عرب امارات اور ترکی جارہے ہیں، جہاں سے وہ غير قانونی طریقوں سے مختلف یورپی ممالک چلے جاتے ہیں۔ ايف آئی اے کا کہنا ہے کہ پھر بھی وہ انسانوں کی اسمگلنگ کے اس کاروبار کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کاروبار میں ملوث زیادہ تر افراد کا تعلق پنجاب سے ہے۔

انسانوں کی اسمگلنگ کا سد باب

ایف آئی اے کے افسران کا کہنا ہے کہ وہ ملکی اور غیر ملکی اداروں سے تعاون کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان سے ہیومن ٹریفیکنگ کا بڑی حد تک قلع قمع کر دیا گیا ہے۔ البتہ ملک میں موجود معاشی حالات کی وجہ سے بہت سے پاکستانی کسی بھی طور ترکِ وطن کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ ان مجرموں کے جھانسے میں آجاتے ہیں جو انہیں یورپ میں بہترطرزِ زندگی کے وعدوں پر بے وقوف بناتے ہیں۔ البتہ پاکستان سے اب مند بلو ، بلوچستان اور ایران کی سرحد پر ہونے والی ہیومن ٹریفکنگ ختم ہوچکی ہے۔

ڈنکی لگا کر یورپ جانے کی کوشش میں پاکستانی نوجوان کی موت

02:55

This browser does not support the video element.

پنجاب میں صورتحال تشویشناک کیوں؟ 

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل محسن حسن بٹ کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ یہ لڑائی اکیلے نہیں لڑ سکتا اور ان کو تمام اداروں کا تعاون درکار ہوگا۔ ادارے کے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق صرف پنجاب سے انسانی ٹریفکنگ میں انتہائی مطلوب افراد کی تعداد 106 ہے، جبکہ پورے ملک میں یہ تعداد 156 ہے۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو خود اب ملک سے باہر مقیم ہیں۔ پچھلے سال یہ تعداد صرف 92 تھی۔

 

غیر قانونی طور پر پاکستان سے نکلنے والوں کا انتہائی کٹھن سفرتصویر: Jelena Djukic Pejic/DW

انسانوں کے اسمگلرز کے ایف آئی اے اہلکاروں سے روابط

ایف آئی اے کے ایک افسرکی جانب سے ادارے کے ذمہ داران کو باقاعدہ تحریری شکایت میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے آئے افراد کو یورپ کا غیرقانونی سفرکرنے کے لیے کراچی ایئرپورٹ سے دُبئی سمیت دیگرجگہوں پربھیجا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ افغان اور بنگالی بھی جعلی پاسپورٹ کے ذریعے ایف آئی اے کے اہلکاروں اورافسران کی ملی بھگت سے بیرون ملک سفرکررہے ہیں۔ اس تحریری شکایت میں باقاعدہ ریٹ لسٹ بھی بتائی گئی ہے جس کے مطابق جنوبی افریقہ کے لیے 50 ہزارروپے، ملائیشیا اورتھائی لینڈ کے لیے 20 ہزار روپے اور آسٹریلیا کے لیے ایک لاکھ روپے تک وصول کیے جاتے ہیں۔ یورپ جانے کے خواہشمند افراد کو پہلے افریقی ممالک بھیجا جاتا ہے جہاں سے وہ مصر، لیبیا یا ترکی پہنچ کریورپ کی جانب سفرشروع کرتے ہیں۔ امریکہ جانے والے ایف آئی اے اہلکاروں و افسران کی ملی بھگت سے پہلے ارجنٹینا،ایکواڈو،کولمبیا اور وینیزویلا روانہ ہوتے ہیں، جہاں سے وہ میکسیکو کے راستے امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

انسانی اسمگلرز کا نیٹ ورک کراچی ایئرپورٹ پر

ایف آئی اے کے ايک افسر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر ڈوئچے ويلے کو بتايا، ''کراچی ایئرپورٹ پرمبینہ طور پرانسانوں کی اسمگلنگ کا منظم گروہ کام کررہا ہے جو پاکستان کی چھوٹی وبڑی ٹریول ایجنسیوں سے براہ راست واٹس ایپ کے ذریعے رابطے میں ہے، انہیں مسافروں کی لسٹیں فراہم کرتا ہے۔ یہ لسٹیں ایف آئی اے کی ڈیپارچر شفٹس میں فلائٹ کے حساب سے دی جاتی ہیں۔ شفٹ انچارج اورگروپ انچارج کے پاس مسافروں کے نام موجود ہوتے ہیں۔ ان مسافروں کی ایف آئی اے اہلکاروں کی جانب سے بورڈنگ تک رہنمائی کی جاتی ہے۔ بعض مسافرمختلف ممالک سے ڈیپورٹ کر دیے جاتے ہیں تو انہیں بنا کسی انکوائری کے گھرجانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ "

 

ثقافتی طائفوں کے نام پر جسم فروشی کے لیے انسانی اسمگلنگ

12:36

This browser does not support the video element.

 

غیر قانونی ترک وطن کرنے والا پاکستانی، سربیا اور بوسنیا کے درمیان ایک مخدوش ٹرین اسٹیشن پرتصویر: Jelena Djukic Pejic/DW

انسانوں کے اسمگلرز کے سفارتخانوں اورقونصل خانوں سے رابطے

گذشتہ 25 سال سے ٹریول اورٹورازم انڈسٹری سے وابستہ ایک ٹریول ایجنٹ نے شناخت ظاہرنہ کرنے کی شرط پرڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مختلف ممالک کے سفارتخانوں اورقونصل خانوں میں انسانوں کے اسمگلرز کو باآسانی رسائی حاصل ہے۔ ان کے بقول، ''سفارتخانوں اورقونصل خانوں کے مقامی اسٹاف کی معاونت سے بروقت اورآسانی سے ویزے حاصل کیے جاتے ہیں جس کے عوض معقول ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ کراچی میں یورپ کے ايک اہم ملک کے قونصل خانے میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے جہاں من پسند ٹریول ایجنٹس کو فوری ویزے جاری کردیے جاتے ہیں جبکہ عام شہری کو ویزے کے حصول میں دشواری کا سامنا رہتا ہے اوران کی ویزا درخواستیں يا تو مسترد ہوجاتی ہیں يا پھر انہيں انٹر ويو کے لیے ٹائم نہيں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ شہری بھاری معاوضوں کے عوض ٹریول ایجنٹس کے  ذریعے ویزے کے حصول کوترجیح دیتے ہیں۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں