پاکستان کے نصف عوام کورونا ویکیسن لگوانا ہی نہیں چاہتے، سروے
28 جنوری 2021
پاکستانی حکام نے آئندہ ہفتے سے ملک میں ویکسین لگانے کا عمل شروع کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن ایک تازہ سروے کے مطابق دنیا کے اس پانچویں سب سے بڑے ملک کی نصف آبادی کورونا وائرس کے خلاف ویکسین لگوانا ہی نہیں چاہتی۔
اشتہار
دنیا میں معتبر سمجھے جانے والے ادارے گیلپ کے ایک تازہ سروے کے مطابق انچاس فیصد پاکستانی کووڈ انیس کے خلاف ویکیسن لگوانے کے حق میں نہیں ہیں۔ سروے میں شامل ان افراد کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
اس گیلپ سروے کے نتائج ایک ایسے وقت پر جاری کیے گئے ہیں، جب جمعرات کو پاکستانی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ ہفتے سے سائنوفارم ویکسین لگانے کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ پاکستان کے ہمسایہ دوست ملک چین نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ ایسی پانچ لاکھ ویکسینز اتوار تک پاکستان کو عطیہ کر دے گا۔
پاکستان کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے برطانیہ کی ویکیسن آسٹرا زینیکا اور روس کی تیار کردہ سپوتنک فائیو کی منظوری بھی دے دی ہے۔ قبل ازیں پاکستانی حکام نے عندیہ دیا تھا کہ نجی سیکٹر کو یہ اجازت دی جائے گی کہ وہ کسی بھی بڑی کمپنی کی تیار کردہ ویکسین خرید سکے۔
گیلپ سروے میں شامل اڑتیس فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ ویکسین لگوانے کے لیے تیار ہیں۔ اس تازہ سروے میں بالکل ویسے ہی خدشات سامنے آئے ہیں، جیسے کہ پاکستان میں پولیو ویکسین کے بارے میں بھی پائے جاتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ صرف دو ملک ہیں، جہاں پولیو کی بیماری ابھی تک پائی جاتی ہے۔
مانسہرہ کی ریزمہ بی بی پولیو کے قطرے پلانے کا کام کرتی ہیں۔ ان کا جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میرا نہیں خیال کہ میرے خاندان کو کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی ضرورت ہے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ لوگ اس وائرس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔‘‘
میاں آصف پشاور میں کاروبار کرتے ہیں۔ وہ ویکسین لگوانے کے حق میں ہیں لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وہ چین کی ویکسین نہیں لگوائیں گے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پانچ لاکھ سے زائد افراد اب تک کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد تقریباﹰ گیارہ ہزار بنتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس ٹیسٹ کم کیے جاتے ہیں اور متاثرہ افراد کی حقیقی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
ا ا / م م ( ڈی پی اے، اے ایف پی)
جنوبی افریقہ میں صابری چشتی ایمبولینس سروس کا کردار
مسیحی اکثریتی ملک جنوبی افریقہ کے مسلمانوں نے تیس برس پہلے عطیات جمع کرتے ہوئے صابری چشتی ایمبولینس سروس کا آغاز کیا تھا۔ کورونا بحران میں یہ سروس نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں لیے بھی سہارا بنی ہوئی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
مسیحی اکثریتی ملک جنوبی افریقہ کے اقلیتی مسلمانوں نے تیس برس پہلے عطیات جمع کرتے ہوئے صابری چشتی ایمبولینس سروس کا آغاز کیا تھا۔ کورونا بحران میں یہ سروس نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگوں لیے بھی سہارا بنی ہوئی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
میت کو غسل دینے والے شخص نے کورونا وائرس کے خطرے کے باعث حفاظتی لباس پہن رکھا ہے لیکن اس کے باوجود میت کا احترام وہاں کیے جانے والے انتظامات سے عیاں ہوتا ہے۔ ساؤتھ افریقہ کی مسلم کمیونٹی نے دارالحکومت جوہانسبرگ کے مضافاتی علاقے لیناسیا میں خصوصی غسل خانے قائم کیے ہیں، جہاں کورونا وائرس کے باعث وفات پا جانے والوں کو غسل دیا جاتا ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
اب اس سروس کا دائرہ کار وسیع ہو چکا ہے۔ اب کورونا کے مریضوں کو نا صرف ان کے گھروں پر ہی طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں بلکہ شدید بیمار مریضوں کو آکسیجن بھی مہیا کی جاتی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
جنوبی افریقہ میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایسے میں اب مسلمانوں کی تدفین کے لیے میت کے غسل سے لے کر اس کی تدفین تک کا عمل یہی تنظیم انجام دے رہی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
یہ سوسائٹی اب تک کورونا سے متاثرہ 180 افراد کی تدفین کر چکی ہے جبکہ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے قبرستان میں پہلے ہی قبریں کھودی گئی ہیں۔ اب کئی دیگر مقامی تنظیمیں بھی صابری چشتی سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں اور ہلکی علامات والے کورونا کے مریضوں کو ان کے گھروں پر ہی علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
اس وقت دنیا بھر میں زیادہ تر غیر مسلم آبادی والے ممالک میں آباد مسلمانوں کو تدفین کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم ساؤتھ افریقہ کی صابری چشتی کمیونٹی اس مسئلے کے حل کے لیے انتہائی معاون ثابت ہو رہی ہے۔ اس تنظیم کو مقامی طبی حکام کا تعاون بھی حاصل ہے تاکہ محفوظ تدفین کو ممکن بنایا جا سکے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
ابوبکر سید کے مطابق یہ غریب علاقہ ہے اور لوگوں کے پاس پیسے بھی نہیں ہوتے۔ لہٰذا زیادہ تر افراد سے کوئی فیس وغیرہ نہیں لی جاتی۔ ساؤتھ افریقہ کی ساٹھ ملین کی آبادی میں سے اب تک تقریباﹰ چودہ لاکھ افراد کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہسپتالوں میں نئے مریضوں کے لیے گنجائش کم ہے۔
تصویر: Bram Janssen/AP Photo/picture alliance
ساؤتھ افریقہ میں کورونا وائرس کی دوسری لہر جاری ہے اور اب وہاں مریضوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ آج کل اس تنظیم کی ایمبولینس سروس روزانہ کووڈ انیس کے اوسطاﹰ چودہ مریضوں کو ہسپتال منتقل کر رہی ہے۔ یہ سروس اب لیناسیا اور اس کے ارد گرد کے علاقوں کے تمام رہائشیوں کو بلاامتیاز فراہم کی جا رہی ہے۔