پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکڑ کو گیس کی قلت کا سامنا
27 نومبر 2013
پاکستان میں موسم سرما کے آغاز سے ہی گیس کی قلت شروع ہو گئی ہے اور حکومت نے گھریلو صارفین کی گیس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ اور صنعتی شعبے کے صارفین کو گیس کی فراہمی قدرے کم کر دی ہے۔ ملک میں اٹھارویں ترمیم کے بعد آئین کے تحت گیس پیدا کرنے والے صوبوں کا گیس کے استعمال پر پہلا حق ہے۔ ٹیکسٹائل سیکڑ کے ستر فیصد کارخانے صوبہ پنجاب میں ہیں، جہاں دوسرے صوبوں کے برعکس اس وقت گیس کی شدید لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ یہاں ٹیکسٹائل سیکڑ کو بجلی فراہم کرنے والے تمام نجی کارخانے بھی گیس پر چلتے ہیں اور اس وقت ہفتے بھر میں ٹیکسٹائل کی صنعتوں کو صرف بیالیس گھنٹے گیس فراہم کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ ٹیکسٹائل پاکستان کا اہم صنعتی شعبہ ہے، جس کا ملک کی مجموعی برآمدات میں حصہ پچاس فیصد سے زیادہ ہے۔ اس شعبے سے وابستہ افراد کی تعداد پندرہ ملین کے قریب ہے جبکہ جی ڈی پی میں اس کا حصہ آٹھ فیصد ہے۔ پاکستانی ٹیکسٹائل سیکڑ کی چھبیس فیصد ایکسپورٹس یورپ کی منڈیوں میں جاتی ہے۔
بدھ کے روز لاہور کے اپٹما ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپٹما کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستان میں زرِ مبادلہ کے ذخائر 3.3 ارب ڈالر رہ گئے ہیں، پر گیس کے بحران کے نتیجے میں اگلے تین مہینوں میں پاکستان کی تین ارب ڈالر کی ایکسپورٹس متاثر ہو سکتی ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اپٹما پنجاب کے سينئر نائب چیئرمین سید علی احسان نے بتایا کہ اگلے چند دنوں میں سردی میں مزید اضافے اور بھل صفائی کے لیے نہروں کی بندش کی وجہ سے توانائی کا يہ بحران مزيد شدت اختیار کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکڑ کو ایک ایسے وقت میں توانائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جب اسے یکم جنوری دو ہزار چودہ سے یورپی منڈیوں میں جی ایس پی پلس کے تحت زیادہ رسائی ملنے والی ہے اور ان دنوں ٹیکسٹائل کے کارخانے یورپی منڈیوں کے لیےکپڑے کی مصنوعات تیار کرنے میں مصروف ہیں۔
سید علی احسان کے مطابق پاکستان میں گیس کے بحران کے مستقل خاتمے کے لیے گیس چوری کو روکنے، گیس کے نئے ذخائر کی تلاش کے عمل کو تیز تر کرنے اور حکومتی ترجیحات کے درست تعین کی ضرورت ہے۔
اس صورتحال میں اپٹما کا ایک وفد جمعرات کے روز وزیر اعظم پاکستان نواز شریف سے ملا قات کرنے جا رہا ہے