پاکستان کے پیدائشی افغان مہاجرین کے لیے شہریت کی راہ ہموار؟
21 اکتوبر 2022اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے پاکستان میں پیدا ہونے والے ایک افغان نوجوان کو پاکستانی شہریت دینے سے متعلق وفاقی وازرت داخلہ کو جاری کی گئی ہدایت کے بعد افغان مہاجرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس عدالتی اقدام کو سراہا ہے۔
پاکستان: افغان شہریوں کا مغربی ممالک میں سیاسی پناہ کا مطالبہ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بیس اکتوبر بروز جمعرات افغانستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والی ایک فیملی کے گھر پاکستان میں پیدا ہونے والے 24 سالہ افغان لڑکے حق نواز کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے عمر اعجاز گیلانی ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل نےپاکستان میں 24 سال بغیر کسی شہریت کے گزارے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والا کوئی بھی بچہ پاکستانی شہری بن جائے گا، اسے صرف پیدائش کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہو گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امریکہ اور چند دیگر ممالک کی طرح ہمارا قانون بھی پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو شہریت دینے کا پابند ہے۔
چار ماہ کے دوران صرف 24 افغان خاندانوں کی وطن واپسی
وزارت داخلہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ پیدائشی سرٹیفیکیٹ کی تصدیق پر فیصلہ کر دیا جائے گا۔ عدالت نے وزارت داخلہ کو اس شہری کی درخواست پر قانون کے مطابق فیصلہ کر کے رپورٹ عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے مقدمے کی سماعت 28 اکتوبر تک ملتوی دی۔
پاکستان سیٹیزن ایکٹ
عمر گیلانی ایڈووکیٹ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی شہریت کا قانون بہت واضح ہے، ہر وہ بچہ جو اس ملک کی سرزمین پر جنم لے گا وہ پاکستانی شہری ہو گا۔ اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''شہریت ایکٹ کا سیکشن چار صرف دو صورتوں میں بچوں کو پاکستانی شہریت کا حق نہیں دیتا۔ ان میں پہلی صورت یہ ہے کہ اگر کسی غیرملکی سفارتکار کے ہاں بچے کی پیدائش ہو تو وہ پاکستانی شہریت کا حق دار نہیں اور دوسرا اگر کوئی غیرملکی پاکستان پر قابض ہو تو ُاس کے یہاں پیدا ہونے والے بچہ بھی کبھی پاکستانی شہری نہیں بن سکتا۔‘‘
عمر گیلانی کے مطابق اس کے علاوہ کوئی ایک بھی ایسی صورت نہیں جو کسی بچے کو اس کے پاکستانی شہریت کے پیدائشی حق سے محروم کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے دہائیوں سے اس قانون کا اطلاق نہیں ہو رہا۔
پاکستان: افغان مہاجرین کو کڑے حالات کا سامنا
ان کا کہنا تھا، '' میرے موکل ہی کی مثال لیں وہ 1998ء میں افغان مہاجر والدین کے ہاں پاکستان میں پیدا ہوا۔ اس نے ایف تک تعلیم حاصل کی اور پھر قیمتی پتھروں کا کاروبار شروع کر دیا ۔ اب وہ انٹرنیٹ کے ذریعے ان قیمتی پتھروں کی فروخت سے پاکستان کے لیے زر مبادلہ کما رہا ہے۔ کیا ایسے انسان کو پاکستان کا ایک کارآمد شہری بننے کا حق حاصل نہیں۔‘‘
خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے اگست 2018 ء میں قومی اسمبلی کوبتایا تھا کہ ان کی حکومت پاکستانی شہریت کے قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔ عمر گیلانی کا کہنا ہے کہ اگر نادرا عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرے، تو اس سے لاکھوں لوگ جو غیر قانونی زندگیاں بسر کرنے پر مجبور ہیں ان کا بھلا ہو گا اور اس کا فائدہ پاکستان کو بھی ہو گا۔
خوشی کی خبر
خیبر پختونخواہ کے ضلع ہنگو کے ایک افغان مہاجر کیمپ میں مقیم عبدالقیوم بھی ان لاکھوں افغانوں میں شامل ہیں، جو پیدا تو پاکستان میں ہوئے لیکن ان کے پاس یہاں کی شہریت نہیں۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ انہیں فیس بک پر کی گئی ایک پوسٹ کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک افغان نوجوان کی شہریت کے متعلق فیصلے کا معلوم ہوا۔
انہوں نے بتایا، ''اس فیصلے پر اتنی خوشی ہوئی ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ میری عمر بیالیس سال ہے۔ میں یہیں پیدا ہوا، یہیں تعلیم حاصل کی اور اب کاروبار کرتا ہوں لیکن میرے پاس پاکستانی شہریت نہیں۔ اب میں انتظار کروں گا کہ اس مقدمے کا کیا نتجہ نکلتا ہے اگر وازرت داخلہ نے اس افغان مہاجر کےپاکستان میں پیدا ہونے والے بچے کو شہریت دی، تو پھر میں بھی اپنی شہریت کے لیے اپلائی کروں گا۔‘‘
’افغانستان میں کوئی مستقبل نہیں ہے‘
پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کو پاکستانی شہریت کا قانونی حق حاصل ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں عبدالقیوم کا کہنا تھا،'' اس بارے میں ہمیں بھی پتہ ہے لیکن ایسا کم ہی ہوتے دیکھا ہے۔ اس لیے پہلے کبھی کوشش نہیں کی اور نہ ہی پہلے اس بارے میں اتنا واضح عدالتی فیصلہ کبھی دیکھا تھا۔ اس لیے اب میرے پاس جو برتھ سرٹیفکیٹ ہے، وہ لگتا ہے کہ اب کام آئے گا۔‘‘
پاکستانی شہریت، مہاجرین کا دیرینہ مسئلہ
پشاور میں مقیم پاک افغان امور کے ایک ماہر اور امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ کے نامہ نگار حق نواز خان کے مطابق قانونی طریقے سے پاکستانی شہریت کا حصول لاکھوں افغان مہاجرین کا دیرینہ مسئلہ ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا،'' اسی کی دہائی میں جنگ کے سبب جب لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا تو ان میں سے بہت سارے کبھی بھی واپس نہیں جا سکے، یوں سمجھ لیں کے ان کا اب وہاں پر کوئی بھی نہیں۔ ان لوگوں نے یہاں پاکستان میں کاروبار کر لیے اور ان میں سے بہت سوں کے ہاں بچے بھی پیدا ہوئے تو اگر پاکستان سے ان کو شہریت نہیں ملتی تو پھر ان بچوں کی شہریت کیا ہو گی؟ کیونکہ ایسے بچوں کے لیے جو پاکستان میں پیدا ہوئے افغانستان ایک طرح سے اجنبی ہے۔‘‘
پاکستان: پہلی مرتبہ افغان مہاجرین کے لیے سمارٹ کارڈز جاری
حق نواز خان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عدالتیں وقتاﹰ فوقتاﹰ ایسے فیصلے دیتی آئی ہیں جہاں انفرادی طور پر شہریت کے مسائل سے دوچار افغانوں کو ریلیف ملا ہے۔ تاہم اُن کے بقول اصل میں یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے کہ وہ ایک ایسی شفاف پالیسی مرتب کرے ، جس کی روشنی میں تمام اہل افراد پاکستانی شہریت حاصل کر سکیں۔
انہوں نے کہا، '' بہت سے افغان رشوت دے کر پاکستان کی شناختی دستاویزات کے حصول کی کوشش کرتے ہیں ، اگر حکومت اس بارے میں کوئی حکمت عملی وضع کرے تو نا صرف اس غیر قانوی عمل کو روکا جا سکتا ہے بلکہ افغان مہاجرین کے لیے شفافیت پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کے بین الاقوامی سطح پر تشخص میں بھی بہتری آئے گی، مہاجرت بہرحال اس وقت ایک عالمی مسئلہ اور انسانی حقوق سے جڑا ہوا ہے۔‘‘
افغانستان کے شہری مہاجرت پر مجبور ہیں، ریفیوجی ایجنسی
اس سے قبل حال ہی میں پشاور ہائی کورٹ نے بھی اپنے ایک فیصلے میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) کو ہدایت کی تھی کہ پاکستانی خواتین کے افغان شوہروں کو پاکستانی اوریجن کارڈ یا (پی او سی) جاری کرے۔ ثمینہ روحی نامی ایک درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ نادرا کو حکم دے کہ وہ اُن کے افغان شوہر نصیر محمد کو پی او سی جاری کرے۔ اس جوڑے کی انیس سو پچاسی میں شادی ہوئی تھی اور ان کے پانچ بچے بھی ہیں۔
نصیر محمد بیرون ملک کام کرتے ہیں اور وہ صرف ایک ماہ تک کا ویزہ لے کر اپنی فیملی سے ملنے آسکتے ہیں۔ درخواست گزار نے پاکستانی شہریت کے ایکٹ کی اس شق کو چیلنج کیا تھا، جو پاکستانی مردوں کی غیر ملکی بیویوں کو تو پاکستانی شہریت کا حق دیتی ہے لیکن پاکستانی عورتوں کے غیر ملکی شوہروں کو پاکستانی شہریت کے حصول کا حق نہیں دیتی۔